17 اکتوبر ، 2022
سڑک پر روزانہ سفر تو کرتے ہوئے ٹریفک سگنل تو آپ کی نظروں سے گزرتے ہوں گے۔
مگر کیا کبھی آپ نے سوچا کہ ٹریفک سگنل کی روشنیوں کے لیے سرخ، پیلے اور سبز رنگوں کا انتخاب کیوں کیا گیا؟
تو حقیقت تو یہ ہے کہ گاڑیوں سے پہلے اس طرح کے سگنل کا نظام ٹرینوں کے لیے اپنایا گیا تھا۔
19 ویں صدی میں ٹرین کمپنیوں کی جانب سے سرخ رنگ کو رکنے، سفید رنگ کو چلنے جبکہ سبز کو احتیاط یا یوں کہہ لیں کہ موجودہ پیلے رنگ کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔
سرخ رنگ چونکہ ہمیشہ سے خطرے کا عندیہ دیتا ہے اور اس کو دور سے دیکھنا بھی ممکن ہے تو اسے رکنے کے لیے استعمال کیا گیا۔
مگر ٹرین ڈرائیورز کو سفید رنگ کے باعث مشکلات کا سامنا ہوتا تھا کیونکہ رات کو ستاروں کی روشنی کا دھوکا ہوتا تھا تو رنگوں کی ترتیب بدلنے کا فیصلہ ہوا۔
اس کے بعد سبز رنگ نے سفید کی جگہ لی جبکہ سبز کی جگہ پیلے رنگ کا استعمال کیا جانے لگا۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ پیلا رنگ دیگر 2 سے بالکل مختلف اور رات کو واضح طور پر نظر آتا ہے۔
1865 میں لندن میں گھوڑا گاڑیوں کی تعداد میں اضافے کے بعد ایک ریلوے منیجر جان پی نائٹ نے مقامی حکام سے رابطہ کرکے روڈ ٹریفک کے لیے لائٹ سگنل سسٹم کے استعمال کی تجویز پیش کی۔
اس سسٹم کے تحت دن میں تو پولیس اہلکار ہاتھوں سے ٹریفک کو سنبھالتے جبکہ رات کو سرخ اور سبز رنگوں سے یہ کام لیا جاتا۔
اس تجویز کو قبول کرلیا گیا اور 10 دسمبر 1868 کو اس 2 رنگوں پر سسٹم پر عملدرآمد چند علاقوں میں شروع کیا گیا۔
مگر ابتدائی کامیابی کے بعد یہ سسٹم زیادہ عرصے تک چل نہیں سکا کیونکہ اس وقت گیس لائٹس کو استعمال کیا جاتا تھا تو ایک بار گیس لیک ہونے سے دھماکا ہوگیا۔
اس کے بعد 30 سال بعد امریکا میں اس سسٹم کو دوبارہ اپنایا گیا اور 1914 میں پہلی بار بجلی سے کام کرنے والی ٹریفک لائٹ کو تیار کیا گیا۔
3 رنگوں کی ٹریفک لائٹس پہلی بار نیویارک میں نصب ہوئیں جس کے بعد 1925 میں لندن میں اس کی آمد ہوئی پھر بتدریج دنیا بھر میں ٹریفک سگنلز نصب ہوگئے۔