02 نومبر ، 2022
ایلون مسک کے مالک بننے کے بعد سے سوشل میڈیا نیٹ ورک ٹوئٹر میں کام کرنے والے افراد کو معمول سے زیادہ وقت تک کام کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
سی این بی سی کی رپورٹ کے مطابق ٹوئٹر منیجرز نے عملے کو ہفتے کے 7 دن 12 گھنٹے کی شفٹ کرنے کی ہدایت کی ہے یعنی انہیں ہر ہفتے 84 گھنٹے کام کرنا ہوگا تاکہ ایلون مسک کی ڈیڈلائن کے مطابق کام کرکے سوشل میڈیا نیٹ ورک کو کامیاب بنایا جاسکے۔
ایلون مسک کی جانب سے ٹوئٹر کا کنٹرول سنبھالنے سے قبل ہی کمپنی کے ملازمین کو نکالے جانے کے خدشات سامنے آرہے تھے، ابھی بھی یہ واضح نہیں کہ کتنے افراد کو ملازمت سے نکالا جاسکتا ہے اور کونسے شعبے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔
28 اکتوبر سے کمپنی کے عملے کے لیے ٹاسک طے کردیے گئے ہیں جن کو نومبر کے شروع میں مکمل کرنا ہوگا۔
بیشتر افراد ان ٹاسکس کو ایک ٹیسٹ سمجھ رہے ہیں تاکہ ایلون مسک کو معلوم ہوسکے کہ کون زیادہ محنت کررہا ہے۔
اس سے قبل رپورٹس میں اندرونی ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ ٹوئٹر کے ملازمین ویری فائیڈ اکاؤنٹس کے پراسیس میں تبدیلیوں کے لیے 24 گھنٹے کام کررہے ہیں۔
سی این بی سی کی رپورٹ کے مطابق عملے کو یہ نہیں بتایا گیا کہ انہیں اوور ٹائم ملے گا یا نہیں یا ان کی ملازمت کس حد تک محفوظ ہے۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ ملازمین کو خدشہ ہے کہ اگر انہوں نے اپنے ٹاسک مقررہ ڈیڈلائن تک مکمل نہ کیے تو انہیں ٹوئٹر سے فارغ کیا جاسکتا ہے۔
دوسری جانب انسائیڈر کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ ٹوئٹر کے منیجرز کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ عملے کی کارکردگی کا جائزہ لے کر ایسے افراد کی فہرستیں ایلون مسک کو بھیجیں جن کی ملازمت برقرار رکھنی چاہیے۔
مگر منیجرز خود دباؤ کے شکار ہیں جو 28 اور 29 اکتوبر کی راتیں کمپنی کے دفتر میں گزارنے پر مجبور ہوئے تاکہ اپنا کام مکمل کرسکیں۔
خیال رہے کہ ایلون مسک اس وقت ٹوئٹر کے سی ای او اور چیئرمین ہیں اور ان کے مطابق وہ عارضی طور پر کمپنی کے واحد ڈائریکٹر بھی ہیں۔