04 نومبر ، 2022
بادام صحت کے لیے بہت مفید ہوتے ہیں جس کی وجہ اس گری میں فائبر، وٹامن ای اور دیگر غذائی اجزا کی موجودگی ہے۔
مگر بیشتر افراد کے خیال میں باداموں کو پانی میں بھگو کر کھانا صحت کے لیے زیادہ فائدہ مند ہوتا ہے۔
درحقیقت ایسے افراد کی کمی نہیں جو رات بھر باداموں کو کسی برتن میں بھگو کر رکھتے ہیں اور صبح کھالیتے ہیں۔
مگر کیا واقعی بادام بھگو کر کھانا صحت کے لیے زیادہ مفید ہوتا ہے؟ اس بارے میں سائنس کی رائے جان لیں۔
مگر اس سے پہلے بادام بھگو کر کھانے کی عادت کے ممکنہ فوائد جان لیں۔
باداموں کی ساخت سخت ہوتی ہے اور اس وجہ سے اس گری کو ہضم کرنا مشکل ہوتا ہے۔
مگر پانی میں بھگو کر رکھنے سے بادام نرم ہوجاتے ہیں اور ہمارے جسم کے لیے انہیں ہضم کرنا کافی حد تک آسان ہوجاتا ہے۔
تحقیقی رپورٹس میں عندیہ ملا ہے کہ بادام بھگو کر کھانے سے نظام ہاضمہ بہتر ہوسکتا ہے۔
باداموں کو بھگونے سے انہیں چبانا آسان ہوجاتا ہے جس سے غذائی اجزا کے حصول میں مدد ملتی ہے۔
تحقیقی رپورٹس کے مطابق باداموں کو بھگو کر کھانے کے بعد لوگ اس گری کو زیادہ اچھی طرح چباتے ہیں جس سے زیادہ غذائی اجزا خارج ہوکر جسم کا حصہ بنتے ہیں۔
اسی طرح ہمارا معدہ ان غذائی اجزا کو زیادہ بہتر طریقے سے جذب کرپاتا ہے۔
بادام کو بھگو کر رکھنے سے اس کے ذائقے پر بھی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
خام بادام سخت اور کرکرے ہوتے ہیں جن کا ذائقہ ہلکا سا تلخ ہوسکتا ہے، مگر پانی میں رہنے سے بادام نرم ہوجاتے ہیں جس سے تلخ ذائقہ بھی گھٹ جاتا ہے۔
اگرچہ بادام بھگو کر کھانے سے ہاضمہ بہتر ہوسکتا ہے اور غذائی اجزا کی دستیابی بڑھ جاتی ہے مگر خشک بادام بھی صحت کے لیے اہم ہوتے ہیں۔
یہ گری فائبر، پروٹین اور صحت کے لیے مفید چکنائی کے حصول کا اہم ذریعہ ہے جبکہ اسے کھانے سے وٹامن ای، میگنیشم اور دیگر متعدد غذائی اجزا جسم کو ملتے ہیں۔
تحقیقی رپورٹس کے مطابق باداموں میں موجود اینٹی آکسائیڈنٹس سے متعدد دائمی امراض بشمول امراض قلب اور ذیابیطس ٹائپ 2 سے تحفظ مل سکتا ہے۔
بادام کھانے کی عادت سے جسمانی وزن، نقصان دہ کولیسٹرول کی سطح میں کمی آتی ہے جبکہ بلڈ شوگر کو کنٹرول کرنا بھی آسان ہوتا ہے۔
تو بادام بھگو کر کھانے سے جسم کے لیے کچھ غذائی اجزا کو جذب کرنا آسان ہوجاتا ہے مگر اس کے بغیر بھی بادام صحت کے لیے اتنے ہی مفید ثابت ہوتے ہیں۔
بادام کو جس طرح بھی کھائیں اس سے صحت کو فائدہ ہی ہوتا ہے۔
نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔