11 نومبر ، 2022
دور جدید میں جہاں ٹیکنالوجی نے طرز زندگی کو آسان بنادیا ہے تو وہیں اس کا غلط استعمال کئی زندگیاں متاثر کرنے کا سبب بھی بن رہا ہے۔
ڈیپ فیک ایک ایسی ہی ٹیکنالوجی ہے جس میں کسی فرد کے چہرے یا آواز کو دوسرے شخص سے با آسانی بدلا جاسکتا ہے،جس سے لگتا ہے کہ وہ ایسے شخص کی ویڈیو یا آڈیو ہے جو دراصل اس کی ہوتی ہی نہیں۔
مثال کے طور پر اگر کسی شخص نے بھارتی اداکار سلمان خان کی ڈیپ فیک ویڈیو بنانی ہو تو وہ سلمان خان کی متعدد تصاویر اور ویڈیوز کو ایک فولڈر میں جمع کرے گا اور ڈیپ فیک بنانے والے سافٹ ویئر کی مدد سے اسے ایڈٹ کرے گا۔
ڈیپ فیک ٹیکنالوجی نہ صرف سلمان کی شکل بلکہ ان کے چہرے کی حرکت اور تاثرات کو بھی اپنے سسٹم میں محفوظ کرلے گی اور جیسے ہی سلمان کا چہرہ کسی بھی دوسرے فرد پر لگایا جائے گا تو یہ ٹیکنالوجی اس شخص کے چہرے کو ایک دم سلمان خان جیسا بنا دے گی، نہ صرف شکل و صورت بلکہ چہرے کی حرکت اور تاثرات بھی سلمان خان جیسے نظر آئیں گے۔
ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کو سائبر حملوں کے لیے بہت زیادہ استعمال کیا جارہا ہے اور اب یہ حقیقی دنیا کے لیے خطرہ بنتی جا رہی ہے۔ وی ایم ویئر کی سالانہ رسپانس تھریٹ رپورٹ کے مطابق چہرے اور آواز کو بدل دینے والی اس ٹیکنالوجی کے استعمال میں 13 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔
مارچ میں یوکرین کے صدر کی ایک ڈیپ فیک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس کی انہوں نے تردید بھی کی تھی مگر بیشتر افراد نے اسے حقیقی سمجھا تھا۔
اسی طرح گزشتہ سال ٹک ٹاک پر ہالی وڈ اداکار ٹام کروز کی کئی ویڈیوز منظر عام پر آئی تھیں جن میں وہ کچھ ایسی چیزیں کر رہے ہیں جو وہ پہلے کبھی کرتے نظر نہیں آئے۔
جس پر غیر ملکی میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ اصل میں ٹام کروز نہیں بلکہ ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے یہ ویڈیوز بنائی گئیں۔
رپورٹ کے مطابق دنیا کو جلد ڈیپ فیک ٹیکنالوجی سے سائبر حملوں کے خطرے کا سامنا ہوگا۔
یہ ٹیکنالوجی 2019 میں مین اسٹریم کا حصہ بنی تھی، ماہرین کا کہنا ہے کہ اس ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے خواتین کو بلیک میل کیا جاسکتا ہے اور یہ سیاسی تنازعات کا سبب بھی بن سکتی ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ 2021 میں ڈیپ فیک حملوں میں 78 فیصد اضافہ ہوا اور زیادہ تر کاروباری اداروں کی ای میلز کو ہیک کرنے کے لیے ایسا کیا گیا۔ اس مقصد کے لیے ہیکر نے خود کو کسی اور فرد کے روپ میں پیش کیا تاکہ حساس تفصیلات حاصل کی جاسکیں۔
آغاز میں ڈیپ فیک تصاویر یا ویڈیوز کو آسانی سے پکڑا جاسکتا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ڈیپ فیک اور حقیقی ویڈیوز میں فرق کرنا مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔