15 دسمبر ، 2022
2009 میں ریلیز ہونے والی فلم اواتار نے دنیا میں سب سے زیادہ بزنس کرنے کا ریکارڈ قائم کیا تھا مگر اسے دیکھنے والے متعدد افراد کو بھی عجیب مسئلے کا سامنا ہوا تھا۔
اواتار ایسی سائنس فکشن فلم تھی جو ناظرین نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔
اس میں دکھائی جانے والی رنگین خلائی دنیا (پنڈورا) کے لہراتے جنگلات، تیرتی پہاڑیاں اور عجیب مخلوقات دنگ کردینے والے تھے۔
مگر ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ جب اواتار کو ریلیز کیا گیا تو کچھ افراد کو فلم دیکھنے کے بعد ڈپریشن اور خودکشی کے خیالات جیسے مسئلے کا سامنا ہوا۔
انہیں فلم میں دکھائے جانے والے مقامات کے مقابلے میں زمین بے رنگ لگنے لگی اور خلائی سیارے میں بسنے والے Na’vi افراد ماحول دوست اور روحانی شخصیت کے مالک محسوس ہوئے۔
اس پر ایک فرد نے آن لائن پوسٹ میں کہا کہ 'جب سے میں نے اواتار کو دیکھا میں ڈپریس ہوں، پنڈورا کی حیرت انگیز دنیا اور وہاں رہنے والوں کی کوششوں کو دیکھ کر خودکشی کا سوچنے لگا ہوں'۔
اس پوسٹ پر دنیا بھر سے ایک ہزار سے زیادہ افراد نے پوسٹس کیں اور اسی طرح کے احساسات کا اظہار کیا۔
یہ بحث پھر دیگر مقامات پر بھی پھیل گئی اور اس کے لیے پوسٹ اواتار ڈپریشن سینڈروم کی اصطلاح استعمال ہونے لگی۔
یہ طبی طور پر شناخت کی گئی بیماری نہیں اور نہ ہی کسی پبلسٹی مہم کا حصہ ہے بلکہ فلم دیکھنے کے بعد لوگوں میں پھیلنے والا احساس تھا۔
اس سینڈروم میں بظاہر فطرت سے کٹ جانے پر افسوس، ہمارے سیارے کے مستقبل کے حوالے سے فکرمندی اور جدید عہد کی زندگی سے عدم اطمینان جیسے جذبات کا غلبہ ہوجاتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس طرح کا تجربہ فلم کی ریلیز کے برسوں بعد بھی اسے پہلی بار دیکھنے والے افراد کو ہوا۔
ایک تخمینے کے مطابق اواتار فین فورمز میں اب بھی 10 سے 20 فیصد اس طرح کے تجربات کو رپورٹ کرتے ہیں۔
کینیڈا کے Ancient Forest Alliance نے اس مسئلے کا حل بھی تجویز کیا ہے۔
اس حل کے مطابق باہر نکل کر فطرت کا تجربہ کریں، فطرت کے تحفظ کے لیے اقدامات کریں اور دیگر افراد کو بھی اس کے لیے تیار کریں۔
اب اس فلم کا دوسرا حصہ ریلیز ہورہا ہے تو فین فورمز میں ڈپریشن کی پوسٹس ہونے کا امکان بھی بڑھ رہا ہے۔
مگر ہوسکتا ہے کہ اواتار دی وے آف واٹر سمندروں کے تحفظ کی تحریک آگے بڑھانے میں کردار ادا کرے۔