27 جنوری ، 2023
عدالت نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔
فواد چوہدری کی جانب سے سرکاری ادارے کے خلاف نفرت پھیلانے کا کیس کی سماعت ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں ہو رہی ہے۔
فواد چوہدری کو 2 روزہ ریمانڈ مکمل ہونے پر کمرہ عدالت پہنچایا گیا، فواد چوہدری کو عدالتی وقت شروع ہونے سے پہلے ہی عدالت پہنچا دیا گیا۔
بابر اعوان، فیصل چوہدری، حماد اظہر، شیریں مزاری اور زلفی بخاری بھی کمرہ عدالت میں موجود ہیں۔
دوران سماعت تفتیشی افسر نے کہا کہ فواد چوہدری آئینی ادارے کے خلاف نفرت پیدا کر رہے ہیں، فواد چوہدری بدامنی پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، بیان سے الیکشن کمیشن کے ورکرز کی جان کو خطرہ پیدا کیا جا رہا ہے، فواد چوہدری سے مزید تفتیش کے لیے جسمانی ریمانڈ ضروری ہے۔
تفتیشی افسر نے بتایا کہ فواد چوہدری کی وائس میچنگ ہو گئی ہے، فوٹو گرامیٹرک ٹیسٹ لاہور سے کروانا ہے جس کے لیے مزید جسمانی ریمانڈ درکار ہے۔
پراسیکیوشن کی جانب سے شہباز گِل کیس کا حوالہ دیا گیا اور کہا گیا کہ رات 12 بجے 2 روز کا ریمانڈ ملا تب تک ایک دن ختم ہو گیا تھا، عملی طور پر ہمیں ایک دن کا ریمانڈ ملا ہے، مزید ریمانڈ دیا جائے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ فواد چوہدری کا بیان ریکارڈ پر موجود ہے، فواد چوہدری نے اپنی تقریر کا اقرار بھی کیا ہے، تقریر پر تو کوئی اعتراض اٹھا نہیں سکتا، ملزم نے بیان مانا ہے، فواد چوہدری نے نفرت پھیلانے کی کوشش کی، حکومت پر الزامات لگائے، الیکشن کمیشن کو حکومت کا منشی کہا، فواد چوہدری نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے ملازمین کےگھروں تک جائیں گے۔
وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کا کردار اگلے چند ماہ بہت اہم ہے، الیکشن کمیشن کا کام کرپشن ختم کرنا ہے لیکن فواد چوہدری پریشر بنا رہے ہیں، الیکشن کمیشن کو دیوار کے ساتھ لگایا جا رہا ہے، فواد چوہدری سینئر سیاستدان ہیں لیکن قانون سے بڑھ کر کوئی نہیں، فواد چوہدری کے گھر کی تلاشی لینا ضروری ہے، فواد چوہدری کے گھر سے لیپ ٹاپ اور موبائل ان کی موجودگی میں حاصل کرنا ضروری ہے، فواد چوہدری کے بیان میں دیگر افراد بھی شامل ہیں۔
وکیل فواد چوہدری بابر اعوان نے کہا کہ میں بھی فواد چوہدری کے بیان میں شامل ہوں، جس پر بابر اعوان اور الیکشن کمیشن کے وکیل کے درمیان تلخ کلامی ہو گئی۔
بابراعوان کا کہنا لتھا ایٹمی ریاست کو موم کی گڑیا بںا دیا گیا ہے، ججوں کے گھروں تک جانے کا بیان دیا گیا، ہم نے پرچہ نہیں کروایا۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ فواد چوہدری کا بیان کسی ایک بندے کا بیان نہیں، ایک گروپ کا بیان ہے، الیکشن کمیشن کے ہی نہیں بلکہ الیکشن کمیشن کے اعلیٰ عہدیداران کے خلاف مہم چل رہی ہے، ڈسچارج کی استدعا گزشتہ پیشی پر ڈیوٹی مجسٹریٹ نے مسترد کر دی تھی، عدالت کے سامنے تمام شہری برابر ہیں۔
بابر اعوان نے کہا کہ کیس کا مدعی ایک سرکاری ملازم ہے، ٹیکس عوام دیتی ہے، موج سرکاری افسران لگاتے ہیں، پبلک سرونٹ کا مطلب عوام کا نوکر ہے، فواد چوہدری کے لیے انسداد دہشتگردی فورس کے اہلکار کھڑے ہوئے ہیں، سیکرٹری الیکشن کمیشن سرکار کے نوکروں کا بھی نوکر ہے۔
وکیل فواد چوہدری کا مزید کہنا تھا مجھے اپنے منشی پر فخر ہے، میرے منشی کو سپریم کورٹ میں داخلے کی اجازت ہے، معلوم نہیں منشی سے پراسیکیوشن کو اتنی چڑ کیوں ہے، الیکشن کمیشن کوئی وفاقی حکومت نہیں اور نہ ہی قومی اسمبلی ہے، سیکرٹری الیکشن کمیشن تو یونین کونسل بھی نہیں ہے، سیکرٹری الیکشن کمیشن اپنے لیے کوئی وائسرائے آف انڈیا قسم کا ٹائٹل رکھ لے، سیکرٹری الیکشن کمیشن ریاست نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ فواد چوہدری تحریک انصاف کے سینئر رہنما ہیں، فوجداری کارروائی کرنے والاسیکرٹری الیکشن کمیشن کیا شفاف انتخابات کروائےگا؟ پاکستان میں بڑی جیل بناکر سب کو قیدیوں میں شمار کر لیں، الیکشن کمیشن ایک پارٹی کی ترجمانی کر رہاہے، الیکشن کمیشن پر قوم کے کھربوں روپے لگتےہیں، پبلک سرونٹس نہ صوبائی حکومت ہیں اور نہ وفاقی حکومت کا حصہ، عدالت دیکھے کہ پبلک سرونٹس کو بنا کیا دیا ہے۔
بابر اعوان کا کہنا تھا پراسیکیوشن کہتی ہے فواد چوہدری بولتا ہے، پاکستان میں کون نہیں بولتا؟ ڈالر نیچے لانے کا بیان دیاگیاتھا، اس کو کیوں نہیں پکڑتے؟ ماضی میں ججز کے لیے جس نے جو بولا وہ سب آج حکومت میں شامل ہیں، پراسیکیوشن کہتی ہے مزید ملزمان کو ڈھونڈنا ہے، پولیس جس کو پکڑتی ہےکہتی ہے لاہور میں بیٹھے شخص کا نام لے لو، تحریک انصاف کے رہنما شیر کے بچے ہیں، لاہور میں بیٹھنے والے کانام نہیں لیتے، سارے ثبوت لاہور میں ہیں، جب لاہور ہائیکورٹ ملزم کا پوچھ رہی تھی تو اسلام آباد لے آئے، پراسیکیوشن نہیں بتا رہی کہ یہ فواد چوہدری سے چاہتےکیا ہیں۔
ان کا کہنا تھا فواد چوہدری نے آگ لگانےکا نہیں کہا، پاکستان میں وکلا قتل ہو رہے ہیں، ان پر حملےہو رہے ہیں، جن وکیلوں کو قانون کی بالادستی کا شوق ہے تو پرائیویٹ وکالت کرنےکی ہمت کریں، پانچویں کلاس کا طالب علم بھی وائس میچنگ کرنا جانتا ہے، عدالت نےتفتیش کے لیے 2 دن دیے، کیا تفتیش ہوئی؟ پراسیکیوشن کو ایک نام چاہیے اور وہ ہے عمران خان کا۔
بابر اعوان کے دلائل پر جج نے ریمارکس دیے کہ دلائل دینا حق ہے لیکن تھوڑا مختصر کر دیں، جس پر بابر اعوان نے کہا میں دو دن دلائل کے لیے لوں گا اور آج تو میرا جنم دن بھی ہے، عدالت میں وکیل بابراعوان کو سالگرہ کی مبارکباد دی گئی۔
وکیل بابراعوان کا کہنا تھا الیکشن کمیشن نے بطور حکومت خود کو بنا لیا ہے، الیکشن کمیشن کا کام انتخابات کروانا ہے، اسلام آباد بلدیاتی انتخابات سے ایک رات قبل الیکشن کمیشن بھاگ گیا، الیکشن کمیشن آئین کی کھلے عام خلاف ورزی کر رہا ہے۔
بابر اعوان نے فواد چوہدری کو مقدمہ سے ڈسچارج کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ فواد چوہدری دہشتگرد نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا الیکشن کمیشن میرے خلاف مقدمےمیں مدعی ہیں، ان سے انتخابات میں انصاف کیسے مانگوں؟ دنیا میں آزاد عدلیہ کا کوئی تصور نہیں، فرخ حبیب نےکالی گاڑی کو روکنےکی کوشش کی، اس پر مقدمہ ہوگیا، مقدمےمیں کہا کہ 31 گاڑیاں تھیں اور فرخ حبیب نے ڈکیتی کرنے کی کوشش کی۔
دوران فواد چوہدری خود روسٹرم پر آئے اور بیان دیا کہ عمران خان پاکستان کے لیے جدوجہد کر رہےہیں، ہم حق سچ بات کریں گے، میں تحریک انصاف کا ترجمان ہوں، ضروری نہیں میری اپنی رائے ہو، میں نے اپنی جماعت کی ترجمانی کرنی ہے، جو میں نے بیان دیا وہ میری جماعت کا مؤقف ہے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے اسلام آباد پولیس نے نہیں لاہور پولیس نے گرفتار کیا، میرا موبائل فون پولیس کے پاس ہے، میری سم بند کی جائے۔
عدالت نے فواد چوہدری کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے انہیں کمرہ عدالت میں اپنی فیملی سے ملنے کی اجازت دی اور ان کی ہتھکڑیاں کھولنے کا حکم دیا جس پر ان کی ملاقات اہلیہ حبا سے کرائی گئی، اس موقع پر دونوں نے وکٹری کا نشان بھی بنایا۔
بعد ازاں عدالت نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے فواد چوہدری کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کے احکامات جاری کر دیے۔