14 فروری ، 2023
کوئی اچانک ہمارے کندھے پر تھپکی دے، اچانک زور دار دھماکا ہو یا کسی بھی غیر متوقع واقعے پر بیشتر افراد کا منہ کھلے کا کھلا رہ جاتا ہے جس کے ساتھ بلند آواز میں سانس بھی کھینچی جاتی ہے۔
مگر ہم ایسا کیوں کرتے ہیں؟ اس کا جواب ہمارے ماضی میں چھپا ہے۔
بنیادی طور پر یہ عمل ہماری بقا کے میکنزم سے منسلک ہے اور ارتقائی مراحل سے گزر کر ہم تک پہنچا ہے۔
جب انسانوں کو کسی ممکنہ خطرے کا سامنا ہوتا ہے تو ہمارے جسمانی ردعمل کے لیے دماغ کا ایک حصہ amygdala متحرک ہوتا ہے۔
جب ہم کچھ ایسا سنتے یا دیکھتے ہیں جو خطرے کا احساس دلاتا ہے تو یہ دماغی حصہ دماغ کے کمانڈ سینٹر hypothalamus کو خطرے کا سگنل بھیجتا ہے۔
دماغ کا کمانڈ سینٹر اعصابی نظام کو متحرک کرتا ہے کیونکہ وہی خطرے یا تناؤ پر ہمارے ردعمل کا تعین کرتا ہے۔
جب اعصابی نظام متحرک ہوتا ہے تو جسم کے اندر مختلف ہارمونز جیسے ایڈرینا لین حرکت میں آتے ہیں۔
ایڈرینا لین کی سطح میں اضافے سے جسم کے اندر متعدد ایسی تبدیلیاں آتی ہیں جن کا مقصد ہمیں برق رفتاری سے سوچنے یا حرکت دینے میں مدد فراہم کرنا ہوتا ہے۔
ہم گہرے سانس لینے لگتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ آکسیجن جسم میں کھینچ سکیں، ہمارا دل تیزی سے دھڑکنے لگتا ہے تاکہ ان مسلز اور اعضا کو آکسیجن مل سکے جو ممکنہ خطرے سے نمٹنے کے لیے اہم ہوں۔
آسان الفاظ میں منہ کھلے کا کھلا رہ جانا خوف سے منسلک ایک جذبہ ہے جو ہمیں ممکنہ خطرے کے خلاف جسمانی ردعمل کے لیے تیار کرتا ہے اور اس سے زیادہ آکسیجن کو کھینچنا بھی آسان ہو جاتا ہے۔
زمانہ قدیم میں تو اس ردعمل سے انسانوں کو خطرناک حالات میں بچنے میں مدد ملتی تھی مگر موجودہ عہد میں ایسی صورتحال پر بھی ہمیں اس کیفیت کا تجربہ ہوتا ہے جن سے کوئی حقیقی خطرہ لاحق نہیں ہوتا۔
تو کسی غیر متوقع دھچکے پر گہری سانسیں لینے کے بعد ہماری حالت ٹھیک ہو جاتی ہے اور جسم پرسکون ہو جاتا ہے۔