01 مارچ ، 2023
پنجاب، خیبرپختونخوا (کے پی) الیکشن ازخود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ نے دونوں صوبوں میں انتخابات 90 دنوں میں کرانے کا حکم دے دیا۔
پانچ رکنی بینچ نے تین دو کی اکثریت سے فیصلہ سنادیا، صدرکا کے پی اسمبلی میں انتخابات کی تاریخ کا فیصلہ کالعدم قرار، سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ صدر مملکت کا 20 فروری کا آرڈر پنجاب کی حد تک درست ہے، اسمبلی گورنر کے حکم سےتحلیل ہو تو انتخابات کی تاریخ دینا بھی گورنر کی ذمہ داری ہے، اگر اسمبلی گورنر کے حکم سے تحلیل نہ ہو تو انتخابات کی تاریخ دینے کی آئینی ذمہ داری صدرِ مملکت کی ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ صدر مملکت الیکشن کمیشن سے مشاورت کے بعد پنجاب میں انتخابات کی تاریخ دیں، الیکشن کمیشن 90 دن کی ڈیڈلائن پرعمل کرتے ہوئے صدر کو انتخابات کی تاریخ تجویز کرے، اگر الیکشن کمیشن 90 دن میں انتخاب نہیں کراسکتا تو کم سے کم وقت میں انتخابات کی نئی تاریخ تجویز کرے، گورنر کے پی بھی الیکشن کمیشن سے مشاورت کر کے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کریں۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ گورنر کے پی نے اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہ کرکے آئین کی خلاف ورزی کی، وفاق کی ذمہ داری ہے کہ انتخابات آئین میں دی گئی مدت میں کرائے، نگران حکومتیں الیکشن کمیشن کو انتخابات کیلئے معاونت فراہم کریں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نےگزشتہ روز محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا، سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس کا تحریری فیصلہ بھی جاری کردیا ہے، فیصلہ 13 صفحات پر مشتمل ہے اور جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس منصورعلی شاہ کے اختلافی نوٹ 2 صفحات پر مشتمل ہیں۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں پنجاب اور کے پی میں انتخابات 90 دنوں میں کرانےکا حکم دیا ہے، سپریم کورٹ نے فیصلہ دو کے مقابلے میں تین کی اکثریت سے دیا ہے، بینچ کی اکثریت نے درخواست گزاروں کو ریلیف دیا ہے۔
فیصلے میں5 رکنی بینچ کے دو ممبران نے درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض کیا، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل نے فیصلے سے اختلاف کیا۔
سپریم کورٹ کا کہنا ہےکہ جنرل اتنخابات کا طریقہ کار مختلف ہوتا ہے، آئین میں انتخابات کے لیے 60 اور 90 دن کا وقت دیا گیا ہے، اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90 روز میں انتخابات ہونا لازم ہیں، پنجاب اسمبلی گورنرکے دستخط نہ ہونے پر 48 گھنٹے میں خود تحلیل ہوئی جب کہ کے پی اسمبلی گورنر کی منظوری پر تحلیل ہوئی۔
فیصلے میں کہا گیا ہےکہ گورنرکو آئین کے تحت تین صورتوں میں اختیارات دیےگئے، گورنر آرٹیکل 112 کے تحت، دوسرا وزیراعلیٰ کی ایڈوائس پر اسمبلی تحلیل کرتے ہیں، آئین کا آرٹیکل 222 کہتا ہےکہ انتخابات وفاق کا سبجیکٹ ہے، الیکشن ایکٹ گورنر اور صدر کو انتخابات کی تاریخ کی اعلان کا اختیار دیتا ہے، اگر اسمبلی گورنر نے تحلیل کی تو تاریخ کا اعلان بھی گورنرکرےگا۔
الیکشن کمیشن فوری طور پر صدرکو انتخابات کی تاریخ تجویز کرے، فیصلہ
سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ صدر مملکت کو انتخابات کی تاریخ کے اعلان کا اختیار حاصل ہے، انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کی آئینی ذمہ داری گورنر کی ہے،گورنر کے پی نے انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہ کرکے آئینی ذمہ داری سے انحراف کیا، الیکشن کمیشن فوری طور پر صدر مملکت کو انتخابات کی تاریخ تجویز کرے، الیکشن کمیشن سے مشاورت کے بعد صدر پنجاب میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان کریں، گورنر کے پی صوبائی اسمبلی میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان کریں، ہر صوبے میں انتخابات آئینی مدت کے اندر ہونے چاہئیں۔
عدالت عظمیٰ کا کہنا ہےکہ الیکشن کمیشن صدر اورگورنر سے مشاورت کا پابند ہے، 9 اپریل کو انتخابات ممکن نہیں تو مشاورت کے بعد پنجاب میں تاریخ بدلی جاسکتی ہے۔
وفاق الیکشن کمیشن کو انتخابات کے لیے تمام سہولیات فراہم کرے: فیصلہ
سپریم کورٹ نے حکم دیا ہےکہ تمام وفاقی اور صوبائی ادارے انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کی معاونت کریں، وفاق الیکشن کمیشن کو انتخابات کے لیے تمام سہولیات فراہم کرے، عدالت انتخابات سے متعلق یہ درخواستیں قابل سماعت قرار دے کر نمٹاتی ہے۔
چیف جسٹس نے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کے اختلافی نوٹ بھی پڑھ کر سنائے۔
اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ آرٹیکل 184/3کے تحت یہ کیس قابل سماعت نہیں، عدالت کو اپنا 184/3کا اختیار ایسے معاملات میں استعمال نہیں کرنا چاہیے، انتخابات پر لاہور ہائی کورٹ فیصلہ دے چکی، سپریم کورٹ ہائی کورٹ میں زیر التوا معاملے پر ازخود نوٹس نہیں لے سکتی۔
اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ پشاور اور لاہور ہائی کورٹ نے 3 دن میں انتخابات کی درخواستیں نمٹائیں، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ کے نوٹس سے اتفاق کرتے ہیں، انتخابات پر ازخود نوٹس کی درخواستیں مستردکرتے ہیں، اس معاملے پر ازخود نوٹس نہیں بنتا تھا، 90 دن میں انتخابات کرانےکی درخواستیں مسترد کی جاتی ہیں۔
چیف جسٹس کا یہ ازخود نوٹس قابل سماعت نہیں ہے:ججز کا اختلافی نوٹ
اختلافی نوٹ میں جج صاحبان نے کہا ہےکہ یہ ازخود نوٹس منظور الہیٰ اور بینظیربھٹو کیسز میں طے اصولوں کے خلاف ہے، یہ معاملہ آرٹیکل 184/3 کے اختیار کے استعمال کا فٹ کیس نہیں ہے، چیف جسٹس کا یہ ازخود نوٹس قابل سماعت نہیں ہے، یہی آئینی معاملات پہلے ہی ہائی کورٹس میں زیرسماعت اور زیرالتوا ہیں، آرٹیکل 184 کے اختیار کو استعمال کرنےکا کوئی جواز موجود نہیں۔
فیصلے سے اختلاف کرنے والے جج صاحبان کا کہنا ہےکہ لاہور ہائی کورٹ کا سنگل بینچ پہلے ہی پٹیشنر کے حق میں فیصلہ دے چکا ہے، لاہور ہائی کورٹ کے سنگل بینچ کے فیصلےکے خلاف انٹرا کورٹ اپیل ڈویژن بینچ میں زیر التوا ہے، صوبائی ہائی کورٹس کی آئینی حدود میں ازخود مداخلت نہیں کی جاسکتی، ہائی کورٹس کی آئینی حدود میں مداخلت آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف ہے، ہائی کورٹس کی آئینی حدود میں مداخلت صوبائی آئینی عدالتوں کی آزادی کے خلاف ہے، آئینی صوبائی عدالتوں کو کمزور کرنےکے بجائے مضبوط کرنا چاہیے۔
ایسے تمام معاملات کو حل کرنا پارلیمان کا اختیار ہے: ججز کا اختلافی نوٹ
اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ ہائی کورٹس میں جاری ان معاملات کی کارروائی میں کوئی تاخیر نہیں ہے، سپریم کورٹ کی حالیہ کارروائی ہائی کورٹس میں جاری کارروائی میں رکاوٹ کا سبب بنی ہے، ہائی کورٹس کو ان آئینی معاملات پر تین دنوں میں فیصلےکا حکم دیتے ہیں، ایسے تمام معاملات کو حل کرنا پارلیمان کا اختیار ہے۔
سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے غلام محمود ڈوگرکیس میں 16فروری کو ازخودنوٹس کے لیے معاملہ چیف جسٹس کوبھیجا تھا جس پر سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد انتخابات کے لیے تاریخ کا اعلان نہ ہونے پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے 9 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔
حکمران اتحاد نے 9 رکنی لارجر بینچ میں شامل 2 ججز پر اعتراض اٹھایا جس کے بعد جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی نے خودکو بینچ سے الگ کرلیا اور جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ بھی9 رکنی بینچ سے علیحدہ ہوگئے۔
9 رکنی بینچ ٹوٹنےکے بعد چیف جسٹس پاکستان نے بینچ کی ازسر نو تشکیل کرکے اسے 5 رکنی کردیا۔
چیف جسٹس پاکستان عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے 2 سماعتیں کیں۔
گزشتہ روز 7 گھنٹےکی طویل سماعت میں فریقین کے وکلا کے دلائل مکمل ہوئے، اسپیکرز کے وکیل علی ظفر اور سپریم کورٹ بار کے وکیل عابد زبیری نے دلائل دیے، عوامی مسلم لیگ کے وکیل اظہر صدیق نے دلائل دیے، اٹارنی جنرل شہزاد عطاالہٰی اور الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل شہریار نے بھی دلائل دیے۔
گورنر کے پی کے وکیل خالد اسحاق، پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک، مسلم لیگ ن کے وکیل منصوراعوان، جے یو آئی کے وکیل کامران مرتضیٰ صدر مملکت کے وکیل سلمان اکرم راجہ، گورنرپنجاب کے وکیل مصطفیٰ رمدے اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب شان گل نے بھی دلائل دیے۔
بینچ میں شامل سپریم کورٹ کے تمام ججز نے گزشتہ روز ریمارکس میں کہا کہ آئینی طورپرانتخابات 90 دن میں ہوں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی آئینی ادارہ انتخابات کی مدت نہیں بڑھا سکتا، انتخابات بروقت نہیں ہوئے تو ملک میں استحکام نہیں آئےگا، عدالت کے سوا کسی آئینی ادارے کو انتخابات کی مدت بڑھانےکا اختیار نہیں، عدلیہ کو بھی مدت بڑھانےکی ٹھوس وجوہات دینا ہوں گی۔
چیف جسٹس نے سیاسی جماعتوں کو آپس میں مشورہ کرنےکی ہدایت دی، جس کے بعد پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نےکہا کہ ان کے پارٹی لیڈرز کہتے ہیں کہ انتخابات کی تاریخ دینا سیاسی جماعتوں کا کام نہیں، ن لیگ کے وکیل منصور اعوان نےکہا کہ دو صوبوں میں ابھی انتخابات سے جنرل الیکشن متاثر ہوگا۔