Time 29 مارچ ، 2023
پاکستان

اٹارنی جنرل وزارت داخلہ و دفاع سےکم سے کم وقت میں انتخابات کا پوچھ کر بتائیں: چیف جسٹس

چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ سماعت کرے گا/ فائل فوٹو
چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ سماعت کرے گا/ فائل فوٹو

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا کے الیکشن کے کیس کی سماعت ہوئی جس میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ وہ وزارت داخلہ اور وزارت دفاع سےکم سے کم وقت میں انتخابات کا پوچھ کر بتائیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالتی کارروائی کسی کو فائدہ دینے کیلئے نہیں ہے،  گزشتہ روز شفاف الیکشن کیلئے سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کا کہا لیکن کسی فریق نے سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کی یقین دہانی نہیں کرائی۔

اس پر  پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ وہ عدالت کو مکمل یقین دہانی کرانے کیلئے تیار ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یقین دہانی کس کی طرف سے ہے، نام بتائیں؟

پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ وہ چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے تحریری یقین دہانی کرائیں گے، چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت کی جانب سے کون یقین دہانی کرائے گا یہ بتایا جائے۔

 سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبر پختونخوا (کے پی) میں انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ جب آرڈر آف دی کورٹ جاری نہیں ہوا تو صدر نے الیکشن کی تاریخ کیسے دی؟الیکشن کمیشن نے کیسے الیکشن شیڈول جاری کیا؟

چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ سماعت کررہا ہے۔

سپریم کورٹ میں سماعت شروع ہوئی تو  جسٹس جمال مندوخیل نے اپنے کل کے ریمارکس پر وضاحت کرتے ہوئےکہا کہ کل میرے ریمارکس پر بہت زیادہ کنفیوژن ہوئی ہے، میں اپنے ریمارکس کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں، میں اپنے تفصیلی آرڈر پر قائم ہوں، فیصلے کا ایک حصہ انتظامی اختیارات کے رولز سے متعلق ہے، چیف جسٹس کو کہیں گے کہ رولز دیکھنے کے لیے ججز کی کمیٹی بنائی جائے، ججز کی کمیٹی انتظامی اختیارات کے رولز کو دیکھے، فیصلے کےدوسرے حصےمیں ہم 4 ججز نے ازخود نوٹس اور درخواستیں مستردکی ہیں۔

 چارججز کا فیصلہ ہی آرڈر آف دی کورٹ ہے:جسٹس جمال

جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ چارججز کا فیصلہ ہی آرڈر آف دی کورٹ ہے،  یہ آرڈر آف دی کورٹ چیف جسٹس پاکستان نے جاری ہی نہیں کیا، جب فیصلہ ہی نہیں تھا تو صدر نے الیکشن کی تاریخ کیسے دی، الیکشن کمیشن نے کیسے الیکشن شیڈول جاری کیا؟ آج عدالت کے ریکارڈ کی فائل منگوالیں، اس میں آرڈر آف دی کورٹ نہیں ہے، آرڈر آف دی کورٹ پر تمام جج سائن کرتے ہیں۔

وکیل فاروق نائیک نے یکم مارچ کے فیصلے کی وضاحت کے لیے فل کورٹ بنانےکی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ انصاف کےتقاضوں کے لیے ضروری ہے کہ یہ فیصلہ ہوکہ فیصلہ 4/3 تھا یا 3/2 کا، پورے ملک کی قسمت کا دار ومدار  اس مدعے پر ہے، قوم ایک مخمصے میں پھنسی ہوئی ہے، سپریم کورٹ کو عوام کی عزت، وقار اور اعتماد کو برقرار رکھنا ہے۔

چیف جسٹس نے فاروق نائیک کو ہدایت کی کہ اپنی درخواست تحریری طورپرجمع کرائیں، عدالت کے ماحول کو خراب نہ کیا جائے۔

فاروق نائیک کی فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا

فاروق نائیک کا کہنا تھا کہ کیس کی سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دیا جائے، یہ کیس سننے سے  پہلے اس بات کا فیصلہ ہونا چاہیےکہ فیصلہ 4/3 کا ہے، پہلے دائرہ اختیار کے معاملے پر فیصلہ کریں۔

چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ  اس مدعے پر فیصلہ تب کریں گے جب درخواست سامنے ہو، پرسکون رہیں، پرجوش نہ ہوں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے ہم الیکشن کمیشن کو سنیں گے، آپ تمام لوگ پی ڈی ایم کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ اس پر فاروق نائیک کا کہنا تھا کہ  پیپلزپارٹی پی ڈی ایم کا حصہ نہیں اتحادی حکومت کا حصہ ہے۔     

الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی روسٹرم پر آئے تو جسٹس جمال نے کہا کہ پہلے الیکشن کمیشن یہ بتائے کہ انہوں نے شیڈول جاری کیسے کیا؟ الیکشن کمیشن کے پاس جب آرڈرآف دی کورٹ آیا ہی نہیں تو اس نےعمل کیسےکیا؟  سپریم کورٹ کا حکم وہ ہوتا ہے جو آرڈر آف دی کورٹ ہو، وہ جاری نہیں ہوا، کیا  آپ نے عدالت کا مختصر حکم نامہ دیکھا تھا؟ وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ  ممکن ہے فیصلہ سمجھنے میں ہم سے غلطی ہوئی ہو۔

جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ کیا مختصر حکم نامے میں لکھا ہے کہ فیصلہ 4/3 کا ہے؟ یکم مارچ کے فیصلے میں کہیں درج نہیں کہ فیصلہ 4/3 کا ہے، اختلاف رائے جج کا حق ہے، ججز کی اقلیت کسی قانون کے تحت خود کو اکثریت میں ہونےکا دعویٰ نہیں کرسکتی۔

جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز کے ریمارکس فیصلے کے انتظامی حصے کی حد تک تھے۔ جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ کھلی عدالت میں 5 ججز نے مقدمہ سنا اور فیصلہ دے کر دستخط بھی کیے۔

کیا جسٹس یحیٰی اورجسٹس اطہرکے فیصلے ہوا میں تحلیل ہوگئے؟ جسٹس جمال

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ مختصرحکم نامے میں لکھا ہے کہ اختلافی نوٹ لکھے گئے ہیں، اختلافی نوٹ میں واضح لکھا ہے کہ جسٹس یحیٰی آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ کے فیصلے سے متفق ہیں، کیا جسٹس یحیٰی آفریدی اورجسٹس اطہرمن اللہ کے فیصلے ہوا میں تحلیل ہوگئے؟

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جو معاملہ ہمارے چیمبرکا ہے اسے وہاں ہی رہنے دیں، اٹارنی جنرل اس نقطہ پر اپنے دلائل دیں گے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ تفصیلی فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن کا کیا موقف ہے؟

وکیل سجیل سواتی نے کہا کہ  چار تین کے فیصلے پر الیکشن کمیشن سے ہدایات نہیں لیں، الیکشن کمیشن نے صاف شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیےکوششیں کیں، الیکشن کمیشن نے سیکشن57 کے تحت الیکشن کی تاریخ بھی تجویز کی، سپریم کورٹ کا فیصلہ 3 مارچ کو موصول ہوا تھا، الیکشن کمیشن نے اپنی سمجھ کے مطابق فیصلے پرعملدرآمد شروع کیا، الیکشن کمیشن نے ووٹ کے حق اور شہریوں کی سکیورٹی کو بھی دیکھنا ہے، صدر کی طرف سے تاریخ ملنے  پر انتخاباتی شیڈول بھی جاری کردیا تھا۔

آرٹیکل17 ووٹنگ پرامن ماحول میں ہونےکی بات کرتا ہے: وکیل الیکشن کمیشن

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے 22 مارچ کے فیصلہ کو چیلنج کیا گیا ہے، الیکشن کمیشن نے 22 مارچ کا آرڈر کس وقت جاری کیا؟ وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ انتخابات ملتوی کرنے کا حکم 22 مارچ شام کو جاری کیا، جب آرڈر جاری کیا تو کاغذات نامزدگی سمیت شیڈول کے مراحل مکمل ہوچکے تھے، فوج نے الیکشن کمیشن کو سکیورٹی دینے سے انکار کیا، آرٹیکل17 ووٹنگ کا حق پرامن ماحول میں پورا ہونے کی بات کرتا ہے، آئین کے مطابق انتخابات صاف شفاف پرامن سازگار ماحول میں ہونے چاہئیں، الیکشن کمیشن نے2 فروری کو فوج، رینجرز  اور ایف سی کوسکیورٹی کے لیے خط لکھے، خیبرپختونخوا میں خفیہ ایجنسیوں نے رپورٹس دیں کہ افغانستان سے دہشت گرد داخل ہوچکے، خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں کے ساتھ الیکشن کمیشن کے اجلاس بھی ہوئے۔

خیبرپختونخوا میں دہشت گردی سے متعلق رپورٹس سنجیدہ ہیں:چیف جسٹس

چیف جسٹس نے پوچھا کہ  دہشت گردی سے متعلق باتیں بہت اہم ہیں،خیبرپختونخوا میں دہشت گردی سے متعلق رپورٹس سنجیدہ ہیں، کیا یہ سب صدر مملکت کو بتایا گیا؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ  تمام صورتحال سے متعلقہ حکام کو آگاہ کیا تھا، عدالت کہے گی تو خفیہ رپورٹس بھی دکھادیں گے، بھکر، میانوالی میں مختلف کالعدم تنظیموں کی موجودگی ظاہرکی گئی، الیکشن کے لیے مختلف فورسز کی 4 لاکھ 12 ہزارنفری مانگی گئی، 2 لاکھ 97 ہزار سکیورٹی اہلکاروں کی کمی کا سامنا ہے، الیکشن کمیشن کو فروری میں ہی معلوم تھا کہ6 سے8 ماہ تک انتخابات کرانا ممکن نہیں۔

اکتوبر میں الیکشن کرانا تھا تو صدرکو 30 اپریل کی تاریخ کیوں تجویزکی؟جسٹس منیب

جسٹس منیب نے کہا کہ الیکشن کمیشن انتخابات کے التوا میں8 فروری کے خطوط پر انحصار کر رہا ہے، عدالت نے یکم مارچ کو اپنا فیصلہ دیا، آپ کو تو فروری میں ہی پتا تھا کہ اکتوبر میں الیکشن کروانا ہے، دوسری طرف الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ عدالتی فیصلے سے انحراف کا سوچ بھی نہیں سکتے، اگر اکتوبر میں الیکشن کروانا تھا تو الیکشن کمیشن نے صدر کو 30 اپریل کی تاریخ کیوں تجویزکی؟

چیف جسٹس عمرعطا بندیال کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن سے بہت سارے سوالات کرنے ہیں، جسٹس منیب اختر کے سوالات نوٹ کرلیں۔

وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے انتخابات کے التوا کا فیصلہ 22 مارچ کو ہی کیا، وزارت داخلہ نے بھی8 فروری کے خط میں امن وامان کی خراب صورتحال کا ذکرکیا۔

جسٹس منیب نےکہا کہ الیکشن کمیشن کےفیصلے میں20 ارب روپے خرچ کا ذکر ہے لیکن کل عدالت کو 25 ارب کا بتایا گیا۔ وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ 5 ارب روپے پہلےہی الیکشن کمیشن کو جاری ہوچکے ہیں، وزارت خزانہ نےکہا موجودہ مالی سال میں الیکشن کے لیے فنڈز جاری نہیں کرسکتے، سیکرٹری خزانہ نے بتایا کہ 20 ارب روپے جاری کرنا ممکن نہیں ہوگا، پنجاب کے لیے 2 لاکھ97 ہزار سکیورٹی اہلکاروں کی کمی کا بتایا گیا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ الیکشن تو ہر صورت 2023 میں ہونا تھے، کیا بجٹ میں 2023 الیکشن کے لیے رقم مختص نہیں کی گئی؟ اٹارنی جنرل منصور اعوان کا کہنا تھا کہ انتخابات کے لیے بجٹ آئندہ مالی سال میں رکھنا ہے۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اگرانتخابات پورے ملک میں ایک ساتھ ہوں تو ٹوٹل کتنا خرچ ہوگا؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ملک بھر میں ایک ہی بار انتخابات ہوں تو 47 ارب روپے خرچ ہوں گے، انتخابات الگ الگ ہوں تو 20 ارب روپے اضافی خرچ ہوگا۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ اسپیشل سیکرٹری داخلہ نے بتایا کہ سیاسی شخصیات کو سکیورٹی خطرات ہیں، وزارت داخلہ کے مطابق سکیورٹی خطرات صرف الیکشن کے دن نہیں، الیکشن مہم میں بھی ہوں گے، وزارت داخلہ نے عمران خان پر حملے کا بھی حوالہ دیا تھا، امریکی انخلا کے بعد افغانستان سے دہشت گرد حملے کر رہے ہیں۔

چیف جسٹس عمرعطا بندیال کا کہنا تھا کہ جو معلومات آپ دے رہے ہیں وہ سنگین نوعیت کی ہیں، کیا آپ یہ باتیں صدر مملکت کے علم میں نہیں لائے؟ اگر صدر پاکستان کو نہیں بتایا تو آپ نے غلطی کی ہے، صدر مملکت نے تاریخ الیکشن کمیشن کے مشورے سے دی تھی، خفیہ رپورٹس میں کہا گیا کہ علاقوں کو کلیئرکرنے میں 6 ماہ لگیں گے، سکیورٹی سے متعلق اعدادوشمار بڑے سنجیدہ ہیں۔

خفیہ اداروں کی رپورٹس پرشک کرنےکی گنجائش نہیں:وکیل الیکشن کمیشن

وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے پاس خفیہ اداروں کی رپورٹس پرشک کرنےکی گنجائش نہیں، ایجنسیوں کی رپورٹس میں جو حقائق بیان کیے گئے وہ نظر انداز نہیں کرسکتے۔

جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ کیسی بات کر رہے ہیں آپ؟ دو اسمبلیاں تحلیل ہوچکی ہیں۔

چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ 20 سال سے ملک میں دہشت گردی کا مسئلہ ہے، اس کے باوجود انتخابات ہوتے رہے ہیں، 90 کی دہائی میں 3 بار الیکشن ہوئے، 90 کی دہائی میں فرقہ واریت اور دہشت گردی عروج پر تھی، اٹھاون ٹو بی کے ہوتے ہوئے ہر 3 سال بعد اسمبلی توڑ دی جاتی تھی، صدر مملکت کو یہ حقائق بتائے بغیر الیکشن کمیشن نے تاریخیں تجویز کیں، پنجاب میں بھی دہشت گردی کے 5 واقعات ہوئے، آخری واقعہ سابق وزیراعظم عمران خان پر قاتلانہ حملہ تھا۔

جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ اگرادارے آپ کو معاونت فراہم کریں توکیا الیکشن کمیشن انتخابات کرائےگا؟ بظاہر الیکشن کمیشن کا سارا مقدمہ خطوط پر ہے، الیکشن کمیشن کا مسئلہ فنڈز کی دستیابی کا بھی ہے۔

وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کوبتایا گیا فوج تعیناتی کے بغیر انتخابات میں سکیورٹی فراہم کرنا ممکن نہیں ہوگا، اسپیشل سیکرٹری داخلہ نےکہا کہ ان حالات میں پر امن انتخابات کا انعقاد نہیں ہوسکتا، سیکٹرکمانڈر آئی ایس آئی نے بتایا کہ کے پی میں کالعدم تنظیموں نے کچھ علاقوں میں ہولڈ بنا رکھا ہے، خفیہ رپورٹس میں بتایا گیا کہ مختلف دہشت گرد تنظیمیں متحرک ہیں، خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں شیڈو حکومتیں قائم ہیں، خفیہ رپورٹس کے مطابق ان خطرات سے نکلنے میں 6 سے 7 ماہ لگیں گے، رپورٹس کے مطابق عوام میں عدم سکیورٹی کا تاثربھی زیادہ ہے، فنڈز اور اداروں کی معاونت ملے توپنجاب میں الیکشن کرانے کو تیار ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ الیکشن کمیشن خود کو آئینی ادارہ کہتا ہے، دو اسمبلیاں تحلیل ہیں الیکشن کروانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، الیکشن کمیشن شیڈول جاری کرتا ہے اور اچانک سے اپنا فیصلہ بدل دیتا ہے، الیکشن کمیشن کا مقدمہ آرٹیکل 218 کا ہے۔

وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ ہم اپنی آئینی ذمہ داریوں سے انحراف نہیں کر رہے۔

جسٹس منیب نے کہا کہ یعنی الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داریوں کے لیے تیار ہے، صرف معاونت درکارہے؟ ہر انسانی جان قیمتی ہے، دہشت گردی کے واقعات سنگین ہیں، فرنٹ لائن پر عوام کا تحفظ کرنے والے سکیورٹی اہلکاروں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں، عدالت نے ان حالات کے ساتھ آئین کو بھی دیکھنا ہے۔

وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے 20 مارچ کو وفاقی کابینہ کوخط لکھا، کابینہ نے 21 مارچ کو الیکشن کمیشن کو جواب میں وزارت دفاع کے موقف کی تائید کی، کابینہ نےکہا کہ الیکشن کے لیے فوج تعیناتی کی منظوری نہیں دے سکتے، کابینہ نے الیکشن کمیشن کو فنڈز دینے سے بھی معذرت کی۔

جسٹس منیب نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے فیصلہ کرنے سے پہلے عدالت سے رجوع کیوں نہیں کیا؟ الیکشن کمیشن شیڈول منسوخ کرنے سے پہلے عدالت سے رجوع کرسکتا تھا۔ وکیل کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے عدالتی حکم پر عمل کیا۔

جس عدالتی حکم پر تمام ججز کے دستخط ہیں وہ کہاں ہے؟ جسٹس جمال

جسٹس جمال مندوخیل نےکہا کہ جس عدالتی حکم پر تمام ججز کے دستخط ہیں وہ کہاں ہے؟ صبح سے پوچھ رہا ہوں کوئی بھی عدالتی حکم سامنے نہیں لا رہا۔

چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ عدالت کا مقصد سیاسی نظام کو چلتے رہنے دینا ہے، کوئی سیاسی جماعت سیاسی نظام کو آگے بڑھانے کی مخالفت نہیں کرتی، ایک مسئلہ سیاسی درجہ حرارت کا ہے، علی ظفراور اٹارنی جنرل کو سیاسی درجہ حرارت کم کرنے پر ہدایت لےکر آگاہ کرنے کا کہا تھا، سیاسی درجہ حرارت اور تلخی کم ہونے تک انتحابات پرامن نہیں ہوسکیں گے، ہدایات کے باوجود کسی فریق نے سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کی یقین دہانی نہیں کرائی۔

وکیل پی ٹی آئی علی ظفر کا کہنا تھا کہ عدالت کو مکمل یقین دہانی کروانے کےلیے تیار ہیں، چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے تحریری یقین دہانی کروائیں گے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ حکومت کی جب باری آئے گی تو ان سے بھی اس حوالے سے بات کریں گے، کابینہ اعلیٰ ترین انتظامی فورم ہے،جہاں مسئلہ زیادہ ہے اس ضلع میں انتحابات مؤخربھی ہوسکتے ہیں، کچے کے آپریشن کی وجہ سے الیکشن کمیشن نے پورے پنجاب میں الیکشن ملتوی کردیا، کے پی میں الیکشن کی تاریخ دے کر واپس لی گئی۔

 الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داری سے کیسے بھاگ سکتا ہے؟جسٹس منیب

جسٹس منیب کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داری سے کیسے بھاگ سکتا ہے؟صاف شفاف انتخابات الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، انتخابی شیڈول پرعمل شروع ہوگیا تھا، اگر کوئی مشکل تھی تو عدالت آجاتے، الیکشن کمیشن وضاحت کرے کہ الیکشن6 ماہ آگے کیوں کردیے؟ کیا اس طرح الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داری پورے کرے گا؟ کیا انتخابات میں6 ماہ کی تاخیر آئینی مدت کی خلاف ورزی نہیں؟

وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ تاریخ مقرر ہوجائے تو اسے بڑھانے کا اختیار الیکشن کمیشن کا ہے، صرف پولنگ کا دن نہیں پورا الیکشن پروگرام مؤخرکیا ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ گورنر اور صدرکی دی گئی تاریخ الیکشن کمیشن کیسے تبدیل کرسکتا ہے؟ آئین میں واضح ہے کہ انتخابات کی تاریخ کون دے گا، کیا الیکشن ایکٹ کا سیکشن 58 آئین سے بالاتر ہے؟

چیف جسٹس عمرعطا بندیال کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کوسپریم کورٹ سے رجوع کرکے قائل کرنا چاہیے تھا، آپ آج ہی عدالت کو قائل کرلیں، کیا8 اکتوبرکوئی جادوئی تاریخ ہے جواس دن کی گارنٹی ہے کہ سب ٹھیک ہوجائے گا؟8 اکتوبرکی جگہ انتخابات کی تاریخ 8 ستمبریا8 اگست کیوں نہیں ہوسکتی؟

جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن حکومت پر انحصار کرتا ہے، حکومت نے بتانا ہےکہ وہ مدد کرنے کی پوزیشن میں ہے یا نہیں، کیا الیکشن کمیشن حکومت کی بریفنگ پر مطمئن ہے؟

حکومتی معاونت ملے تو 30 اپریل کو انتخابات کرواسکتے ہیں:وکیل الیکشن کمیشن

وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی نے کہا کہ حکومتی معاونت مل جائے تو 30 اپریل کو انتخابات کرواسکتے ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن راستہ نہیں ڈھونڈ سکتا تو ہم ڈھونڈیں گے، 1988 میں بھی عدالت کے حکم پر الیکشن تاخیر سے ہوئے تھے، 2008 میں حالات ایسے تھے کہ کسی نے انتخابات ملتوی کرنے پر اعتراض نہیں کیا، اللہ کرے 2008 والا واقعہ دوبارہ نہ ہو، بنیادی حقوق کو مدنظر رکھتے ہوئے آئین کی تشریح ہوگئی ہے، آئین کا آرٹیکل 218-3 آرٹیکل224 سے بالاترکیسے ہوسکتا ہے؟حکومت سے پوچھتے ہیں کہ انتخابات کے لیے 6 ماہ کا عرصہ کم ہوسکتا ہے یا نہیں؟

ایڈووکیٹ جنرل کے پی کا کہنا تھا کہ گورنر کےپی نے ابھی تک انتخابات کی تاریخ نہیں دی، الیکشن کمیشن کی معاونت کے لیے تیار ہیں،

وکیل گورنرکے پی کامران مرتضٰی کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کو تاریخ سے آگاہ کردیا ہے، گورنرکے پی نے 28 مئی کی تاریخ دی تھی،

ڈی جی لاء الیکشن کمیشن نے کہا کہ گورنرکے پی نے8 اکتوبرکی تاریخ دی ہے، گورنرکا خط کل ہی موصول ہوا ہے۔

جسٹس منیب نے کہا کہ عدالت نے یکم مارچ کے حکم میں فوری اور جلداز جلد تاریخ دینے کا کہا تھا، گورنر کے پی نے 8 اکتوبر کی تاریخ کس بنیاد پردی ہے؟ اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد 90 دن 30 اپریل کو پورے ہو رہے ہیں، پہلے ہی حکم نامے میں کہا تھا کہ گورنر تاریخ نہ دے کر آئینی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پنجاب کی نگراں حکومت کا الیکشن کی تاخیرپرکیا موقف ہے؟

ایڈوکیٹ جنرل پنجاب کا کہنا تھا کہ الیکشن کروانا الیکشن کمیشن کا کام ہے، صوبے میں پہلے الیکشن ہوئے تو قومی اسمبلی کا انتخاب متاثر ہوگا، پولیس اہلکارمصروف ہیں اس لیے افواج کی تعیناتی کا کہا تھا، دستیاب وسائل میں رہ کرمعاونت کرسکتے ہیں۔

سپریم کورٹ نے سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کے لیے پی ٹی آئی سے تحریری یقین دہانی مانگ لی۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سیاسی قوتوں کے درمیاں تناؤ سے دیگر ریاستی ادارے متاثر ہو رہے ہیں، عوام میں اداروں کے بارے میں باتیں کی جاتی ہیں، ادارے بول نہیں سکتے اس لیے تحمل سے سنتے ہیں، شفاف الیکشن کے لیے سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کا کہا، فیئرپلے ہو تو اسپورٹس مین سامنے آتے ہیں جنگجو نہیں، مسئلہ کسی کی پختگی کا نہیں دونوں جانب غصہ ہے، غصے کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے، حکومت کی جانب سے کون یقین دہانی کروائے گا یہ بتائیں؟کوئی سینئر عہدیدار  یقین دہانی کروائے تو مناسب ہوگا، دو وزرائے اعلیٰ نے اچھا یا برا اپنا اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار استعمال کیا،  وزارت داخلہ اور دفاع سے حالات کی بہتری کے لیےکم سے کم وقت میں انتخابات کا پوچھ کر بتائیں، انتخابات دو دن میں بھی ہوسکتے ہیں اگر ایک دن ممکن نہ ہوں، امن وامان کی خراب صورتحال پر انتخابات نہیں رکتے۔

سپریم کورٹ نے مزید سماعت کل صبح 11:30 بجے تک ملتوی کردی۔

پہلے روز کی سماعت 

27 مارچ کی سماعت کے تحریری حکم میں کہا گیا ہے کہ آئین کے تحت عام انتخابات وقت پر ہونا لازم ہیں، بروقت عام انتخابات کا ایمانداری، منصفانہ اور قانون کے مطابق انعقاد جمہوریت کےلیے ضروری ہے، عام انتخابات کےانعقاد میں خامی،کمی یا ناکامی مفاد عامہ اور ووٹنگ کا بنیادی حق متاثرکرتی ہے۔

سپریم کورٹ کے تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار کے مطابق الیکشن کمیشن نے صدر مملکت کی انتخابات کی تاریخ منسوخ کی، درخواست گزار کے مطابق الیکشن کمیشن صدرکی تاریخ منسوخ کرنے کا اختیار نہیں رکھتا، درخواست گزار کے مطابق الیکشن کمیشن نے انتخابات ملتوی کرکے آرٹیکل 254 کے پیچھے پناہ لی۔

دوسرے روز کی سماعت

گزشتہ روز سپریم کورٹ میں ہونے والی سماعت میں چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے تھے کہ ایمرجنسی لگا کر ہی الیکشن ملتوی کیے جاسکتے ہیں، سادہ سا سوال ہے کہ الیکشن کمیشن تاریخ آگے کرسکتا ہے یا نہیں، اگر الیکشن کمیشن کا اختیار ہوا تو بات ختم ہوجائےگی۔

جسٹس جمال مندوخیل نےکہا کہ اگر وزیراعظم کی اپنی جماعت عدم اعتماد لانا چاہے تو اسمبلی ٹوٹ سکتی ہے، ایک شخص کےاسمبلی تحلیل کرنےکے اختیار پرپارلیمنٹ کو نظرثانی کرنی چاہیے۔

جسٹس منیب نےکہا کہ اگر انتخابات ممکن نہیں تھے تو الیکشن کمیشن کو عدالت سے رجوع کرنا چاہیے تھا، ایک اسمبلی کے شیڈول کے دوران دوسری اسمبلی تحلیل ہو تو ایک ہی دن انتخابات کرانے کے لیے رجوع کیا جاسکتا ہے، الیکشن کمیشن ازخود انتخابات ملتوی کرنے کا حکم جاری نہیں کرسکتا، الیکشن کمیشن 6 ماہ الیکشن آگے کرسکتا ہے تو 6 سال بھی کرسکےگا۔

جسٹس منیب نے کہا کہ آرٹیکل245 کے تحت حکومت انتخابات کی ڈیوٹی کے لیے فوج کوپابند کرسکتی ہے، انتخابات پرخرچے والی بات تو سمجھ آتی ہے کہ الگ الگ کرانے سے زیادہ پیسے لگیں گے، فوج کی سکیورٹی نہ دینے والی بات مجھے سمجھ نہیں آتی،آئین کے تحت فوج کی ذمہ داری ہے کہ الیکشن کے دوران ڈیوٹی کرے۔


مزید خبریں :