جسمانی توانائی نچوڑ لینے والی عام ترین عادت

لوگوں کی بہت عام عادت اس حوالے سے کردار ادا کرتی ہے / فائل فوٹو
لوگوں کی بہت عام عادت اس حوالے سے کردار ادا کرتی ہے / فائل فوٹو

کیا اکثر دوپہر کو آپ جسمانی توانائی میں کمی کے باعث سستی محسوس کرتے ہیں یا غنودگی کا احساس ہوتا ہے؟

ہم دوپہر کے کھانے کے بعد طاری ہونے والی سستی یا غنودگی کی بات نہیں کر رہے، بلکہ ایسی تھکاوٹ کی بات کر رہے ہیں جو پورا دن برقرار رہتی ہے۔

طبی ماہرین کے مطابق لوگوں کی بہت عام عادت اس حوالے سے کردار ادا کرتی ہے۔

درحقیقت جسمانی توانائی نچوڑ لینے والی بدترین عادت کے بارے میں جان کر آپ حیران رہ جائیں گے۔

ماہرین کے مطابق دن بھر جسمانی توانائی میں برقرار رہنے والی کمی کی سب سے عام وجہ رات کا کھانا ہو سکتی ہے۔

اس کا سامنا ایسے افراد کو ہوتا ہے جو صبح یا دوپہر کی بجائے سب سے زیادہ مقدار میں غذا رات کو جسم کا حصہ بناتے ہیں۔

طبی ماہرین کا کہنا تھا کہ ہمارا جسم دن کے مختلف اوقات میں غذا کو مختلف انداز سے ہضم کرتا ہے۔

صبح 8 بجے اور شام 8 بجے ایک جیسی ہی غذا کھائی جائے تو دونوں اوقات میں ہمارے جسم کا ردعمل مختلف ہوگا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ رات گئے کھانے سے بلڈ شوگر کی سطح پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اگلے دن کی غذا سے توانائی کے حصول کی صلاحیت بھی متاثر ہوتی ہے۔

رات کے مقابلے میں صبح زیادہ مقدار میں غذا کو جسم کا حصہ بنانے سے دن بھر جسمانی توانائی برقرار رکھنے میں مدد ملتی ہے۔

رات کو زیادہ مقدار میں کھانے سے نیند بھی متاثر ہوتی ہے اور ایسا ہونے پر اگلے دن جسمانی توانائی میں کمی کا سامنا ہوتا ہے۔

تو اگر آپ رات گئے بہت زیادہ مقدار میں خوراک کھانے کے عادی ہیں تو اگلے دن جسمانی توانائی میں کمی کے لیے خود کو تیار رکھیں۔

چند دیگر عادات

سافٹ ڈرنکس کا زیادہ استعمال بھی جسمانی توانائی میں کمی کا باعث بنتی ہے۔

اسے کے برعکس چائے یا کافی کا معتدل استعمال جسمانی توانائی کی سطح کو مستحکم رکھنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔

جسمانی توانائی میں کمی کا باعث بننے والی ایک اور عام عادت زیادہ وقت بیٹھ کر گزارنا ہے جبکہ زیادہ چینی اور فاسٹ فوڈ کے استعمال سے بھی اس مسئلے کا سامنا ہوتا ہے۔

اگر آپ تناؤ کے شکار رہتے ہیں تو اس سے بھی جسمانی توانائی کی سطح متاثر ہوتی ہے تو اس سے بچنے کے لیے مراقبے، گہری سانسیں یا یوگا کی مدد لی جاسکتی ہے۔

نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔

مزید خبریں :