Time 12 جون ، 2023
پاکستان

پاکستان و بھارت کی جانب بڑھنے والے سمندری طوفان کا نام ’بپر جوائے‘ کیوں رکھا گیا؟

سمندری طوفان گزشتہ 12 گھنٹوں سے شمال کی جانب بڑھ رہا ہے جو کراچی کے جنوب سے 600کلو میٹر اور ٹھٹھہ کے جنوب سے 580 کلومیٹر دور ہے— فوٹو: این ڈی ایم اے
سمندری طوفان گزشتہ 12 گھنٹوں سے شمال کی جانب بڑھ رہا ہے جو کراچی کے جنوب سے 600کلو میٹر اور ٹھٹھہ کے جنوب سے 580 کلومیٹر دور ہے— فوٹو: این ڈی ایم اے

پاکستان و بھارت کے ساحلوں کی جانب بڑھنے والے سمندری طوفان کا نام ’بپر جوائے‘ رکھا گیا ہے۔

پاکستان کے محکمہ موسمیات کے مطابق سمندری طوفان گزشتہ 12 گھنٹوں سے شمال کی جانب بڑھ رہا ہے جو کراچی کے جنوب سے 600کلو میٹر اور ٹھٹھہ کے جنوب سے 580 کلومیٹر دور ہے۔

بپر جوائے کے ساتھ چلنے والی ہواؤں کی رفتار 150 سے 200 کلو میٹر فی گھنٹہ کے درمیان ہے اور اس کے آگے بڑھنے کی رفتار 9 سے 10 کلو میٹر فی گھنٹہ ہے۔ سمندر میں اس کے مرکز   میں لہروں کی اونچائی 35 سے 40 فٹ اونچی ہیں۔

یہ طوفان چند روز سے شمال کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اگر ماہرین اسے صحیح پڑھ رہے ہیں تو اگلے 24 گھنٹے شمال کی طرف بڑھتے رہنے کے بعد یہ اپنی سمت شمال مشرق کی طرف بدلے گا اور  ٹھٹھہ، بدین، سجاول اور  بھارتی ریاست گجرات اس کی زد میں ہوں گے۔

ماہرین موسمیات کی ریڈنگ ہے کہ اس سسٹم سے سندھ میں اچھی بارشیں ہوں گی اور پنجاب میں پری مون سون بارشیں شروع ہوجائیں گی۔

محکمہ موسمیات کے مطابق 14 جون تک سمندری طوفان شمال کی جانب بڑھےگا اور 15 جون کی دوپہرکو طوفان جنوب مشرقی سندھ اور بھارتی گجرات کو عبورکرےگا،  15 جون کی صبح تک سمندری طوفان کیٹی بندر اور بھارتی گجرات کے درمیان ٹکرا سکتا ہے۔

طوفان کا نام بپر جوائے کیوں رکھا گیا؟

بپر جوائے سال 2023 میں بحیرہ عرب میں بننے والا دوسرا طوفان ہے، پہلا طوفان ’موچا‘ تھا جو بنگلادیش سے ٹکرایا تھا۔ ابتدائی طور پر بحیرہ عرب میں گزشتہ کئی روز تک قوت پکڑنے کے بعد بالآخر بپر جوائے 6 جون کو سائیکلون میں تبدیل ہوا جس کا نام ’بپر جوائے‘ رکھا گیا۔

اس سمندری طوفان کا نام بنگلادیش کی جانب سے تجویز کیا گیا ہے جس کا مطلب ’آفت‘ ہے۔

طوفانوں کے نام ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن (ڈبلیو ایم او) کی جانب سے جاری حکم نامے کے تحت رکھے جاتے ہیں جس کا مقصد ایک ہی مقام پر بننے والے متعدد طوفانوں میں تفریق کرنا ہے۔

اسی مقصد کے تحت چھ ریجنل اسپیشلائزڈ میٹرولوجیکل سینٹرز اور پانچ ریجنل ٹراپیکل اسٹورم وارننگ سینٹرز کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ دنیا بھر میں طوفانوں کے نام رکھیں اور ان کے حوالے سے ایڈوائزری جاری کریں۔ 

جنوب اور جنوب مشرقی ممالک کے قریب بننے والے طوفانوں کو نام دینے کی ذمہ داری انڈین میٹرولوجیکل ڈپارٹمنٹ (آئی ایم ڈی) کی ہے اور اسے ریجنل اسٹورم میٹرولوجیکل سینٹر کا درجہ دیا گیا ہے۔ اس میں 13 ممالک ، جن میں بھارت، بنگلادیش، ایران، میانمار، مالدیپ، عمان، پاکستان، قطر، سعودی عرب، سری لنکا، تھائی لینڈ، متحدہ عرب امارات اور یمن  شامل ہیں۔

اپریل 2020 میں آئی ایم ڈی نے سائیکلونز کو نام دینے کیلئے 169 ناموں کی فہرست مرتب کی جس میں ہر ملک کی جانب سے تجویز کردہ 13، 13 نام موجود تھے۔ ان ناموں کو پھر 13 فہرستوں میں تقسیم کیا گیا اور اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ ہر فہرست میں مذکورہ ممالک کی جانب سے تجویز کردہ کم سے کم ایک نام ضرور ہو۔

پاکستان و بھارت کی جانب بڑھنے والے سمندری طوفان کا نام ’بپر جوائے‘ کیوں رکھا گیا؟

پھر ان فہرستوں سے مرحلہ وار طوفانوں کو نام دیے جانے لگے اور ایک فہرست کے نام ختم ہونے پر دوسری فہرست سے نام دیے جاتے ہیں۔ ان ناموں کو انگریزی کے حروف تہجی کے حساب سے ترتیب دیا جاتا ہے۔

ان ناموں کا اطلاق صرف بحرِ ہند اور ساؤتھ پیسیفک ریجن میں بننے والے طوفانوں پر ہوتا ہے۔

سمندری طوفان بپرجوائے کی آمد کے ساتھ ہی ناموں کی پہلی فہرست ختم ہوگئی ہے اور یہ دوسری فہرست کا پہلا نام ہے جسے بنگلادیش نے تجویز کیا ہے۔ 

اس سے قبل فہرست نمبر ایک کے تمام طوفان گزر چکے ہیں جن کے نام یہ تھے: نسارگا، گاٹی، نیوار، بوریوی، ٹاک ٹائی، یاس، گلاب، شاہین، جواد، اسانی، سِترنگ، منڈوس اور موچا۔  

کسی طوفان کا نام کب تک استعمال کیا جاتا ہے؟

ڈبلیو ایم او کی ہدایت کے مطابق سمندری طوفان کے کسی ساحل سے ٹکرانے کے بعد اس کا تجویز کردہ نام بھی ریٹا ئر ہوجاتا ہے جسے بعد میں کسی دوسرے آنےوالے طوفان کے لیے استعمال نہیں کیاجاتا اور نئے طوفان کے لیے فہرست میں سے اگلا نام منتخب کرلیا جاتا ہے۔

نام تجویز کرنے کی کیا شرائط ہوتی ہیں؟

عالمی طور پر رائج قوائد و ضوابط کے تحت کسی بھی ملک کی جانب سے تجویز کیا جانے والا نام غیر جانبدار ہونا چاہیے۔

یہ نام سیاست، کسی سیاسی رہنما، مذہبی عقائد، ثقافت، مذہبی علامات اور جنس پر مشتمل نہیں ہونے چاہئیں اور کوشش کی جانی چاہیے کہ نام میں پانی کے عنصر کو اہمیت دی جائے۔

مزید خبریں :