Time 22 جون ، 2023
دنیا

گمشدہ ٹائٹن آبدوز میں پھنسے افراد کو کن طبی خطرات کا سامنا ہو سکتا ہے؟

یہ وہ آبدوز ہے جو بحر اوقیانوس میں گم ہوئی / فوٹو بشکریہ اوشین گیٹ
یہ وہ آبدوز ہے جو بحر اوقیانوس میں گم ہوئی / فوٹو بشکریہ اوشین گیٹ

ایک 22 فٹ کی چھوٹی آبدوز یا submersible میں محدود آکسیجن کے ساتھ پانی کے اندر ہزاروں فٹ گہرائی میں پھنس جانے کا خیال دہشت زدہ کر دینے والا ہے۔

ایسا ہی کینیڈا کے ساحلی علاقے نیو فاؤنڈ لینڈ کے ساحل سے تقریباً 600 کلومیٹر دور بحر اوقیانوس میں ڈوبے ٹائی ٹینک کے ملبے کی جانب جانے والی ٹائٹن نامی آبدوز میں سوار 5 افراد کے ساتھ ہوا ہے۔

یہ آبدوز کہاں ہے اور اس میں موجود افراد کی حالت کیسی ہے، اس کے بارے میں ابھی کچھ معلوم نہیں، البتہ یہ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ٹائٹن میں آکسیجن کی سپلائی جمعرات کو کسی وقت ختم ہو سکتی ہے۔

یعنی اس میں موجود افراد کو بچانے کے لیے وقت بہت کم رہ گیا ہے، مگر وہاں پھنسے مسافروں کو اب تک کن طبی خطرات کا سامنا ہوا ہوگا؟

نیو فاؤنڈ لینڈ کی میموریل یونیورسٹی کے طبی ماہر ڈاکٹر کین لیڈز نے برطانوی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ مسافروں کے لیے آکسیجن کا ختم ہونا ہی واحد خطرہ نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ممکنہ طور پر اس آبدوز میں بجلی نہیں ہوگی اور الیکٹرک پاور بھی ٹائٹن کے اندر آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار کو کنٹرول کرنے میں ایک کردار ادا کرتی ہوگی۔

آکسیجن کی مقدار میں کمی کے ساتھ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح میں اضافہ ہوا ہوگا جو مسافروں کی سانس سے خارج ہوتی ہے اور اس کے جان لیوا نتائج ہو سکتے ہیں۔

ڈاکٹر کین نے بتایا کہ 'کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار زیادہ ہوتی ہے تو یہ گیس آپ کو سلا دیتی ہے'۔

کسی فرد کے خون میں اس گیس کی مقدار بڑھ جائے اور علاج نہ ہو سکے تو موت کا سامنا ہو سکتا ہے۔

برطانوی بحریہ کے سابق آبدوز کیپٹن ریان ریمسے نے بتایا کہ انہوں نے ٹائٹن کے اندرونی حصے کی آن لائن ویڈیوز دیکھی ہیں اور انہیں کاربن ڈائی آکسائیڈ کو خارج کرنے کا سسٹم نظر نہیں آیا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'میرے نظر میں تو یہ سب سے بڑا مسئلہ ہے'۔

اس کے ساتھ ساتھ ٹائٹن میں موجود افراد کو شدید ٹھنڈ کے باعث ہایپوتھر سیا کے خطرے کا بھی سامنا ہے۔

کیپٹن ریان ریمسے نے بتایا کہ اگر یہ آبدوز سمندر کی تہہ میں ہے تو وہاں پانی کا درجہ حرارت 0 ڈگری سینٹی گریڈ ہوگا اور اگر اس میں بجلی نہیں ہے تو حرارت بھی حاصل نہیں ہورہی ہوگی۔

ہایپوتھر سیا، آکسیجن کی کمی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں اضافہ جیسے عوامل کے باعث آبدوز میں موجود افراد کی جانب سے امدادی مشنز سے رابطےکی کوششوں میں بھی کمی آئی ہوگی۔

ڈاکٹر کین نے کہا کہ 'اگر ٹائٹن میں سوار افراد بے ہوش ہوچکے ہیں تو وہ اپنی مدد کے لیے کچھ زیادہ کرنے کے قابل نہیں ہوں گے'۔

اگرچہ کوسٹ گارڈ کا کہنا ہے کہ آکسیجن کی بہت کم مقدار باقی بچی ہو گی مگر اس پر سوار افراد کسی حد تک زندگی کے لیے ضروری گیس بچا سکتے ہیں۔

ڈاکٹر کین کے مطابق سانس لینے کی رفتار کم کرنے سے مدد مل سکتی ہے مگر انہوں نے اعتراف کیا کہ ٹائٹن میں پھنسے افراد کے تناؤ کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کافی مشکل کام ہوگا۔

جہاں تک خوراک اور پانی کی بات ہے تو کوسٹ گارڈ کے مطابق مسافروں کے پاس محدود راشن موجود ہے، مگر یہ واضح نہیں کہ ان کے پاس کتنا راشن ہے۔

ان تمام چیلنجز کے باوجود ڈاکٹر کین لیڈز نے زور دیا کہ سرچ آپریشن کو روکنا نہیں چاہیے، کیونکہ لوگ بہت کم آکسیجن میں بھی بچ سکتے ہیں۔

مزید خبریں :