کارپوریٹ فارمنگ کیلئے پاک فوج کو 10لاکھ ایکڑ زمین لیز پردینا غیرقانونی ہے: لاہور ہائیکورٹ

وکیل رافع عالم کا کہنا ہے کہ ”یہ جمہوریت اور قانون کی حکمرانی پر یقین رکھنے والے لوگوں کے لیے ایک بڑی فتح ہے۔“

لاہور ہائی کورٹ کے حکم کے مطابق پنجاب کی نگران حکومت کے پاس کارپوریٹ ایگریکلچر فارمنگ کے لیے 10 لاکھ ایکڑ  تک کی سرکاری اراضی پاک فوج کو منتقل کرنے کا آئینی مینڈیٹ نہیں ہے۔

بدھ کو جاری کیے گئے 134 صفحات پر مشتمل فیصلے میں یک رکنی بینچ نے لکھا ہے کہ نہ تو پنجاب کی عبوری حکومت کے پاس کارپوریٹ فارمنگ کے لیے زمین الاٹ کرنے کا آئینی مینڈیٹ ہےاور نہ ہی پاکستان کی مسلح افواج کو کارپوریٹ فارمنگ کرنےکا آئینی اور قانونی مینڈیٹ حاصل ہے۔

اس فیصلے میں جسٹس عابد حسین چٹھہ نے لکھا کہ فوج کو کارپوریٹ فارمنگ کے لیے الاٹ کی گئی زمین پنجاب حکومت کو واپس کی جائےاور یہ کہ مسلح افواج کے ہر رکن کو اس کے آئینی اور قانونی مینڈیٹ اور ممکنہ خلاف ورزیوں کے نتائج کے متعلق روشناس کرانے کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں۔

انہوں نے یہ بھی ہدایت کی کہ فیصلے کی کاپی وفاقی حکومت، وزارت دفاع، چیف آف آرمی اسٹاف، چیف آف نیوی اسٹاف اور چیف آف ایئر اسٹاف کو بھیجی جائے۔

درخواست گزار کے وکیل رافع عالم نےٹیلی فون پر جیو نیوز کو بتایاکہ ”یہ (فیصلہ) جمہوریت اور قانون کی حکمرانی پر یقین رکھنے والے لوگوں کے لیے ایک بڑی فتح ہے۔“

کیس کا پس منظر کیا ہے؟

رواں سال 8 فروری کو پاکستان آرمی کے ڈائریکٹر جنرل اسٹریٹجک پروجیکٹس نے پنجاب میں بورڈ آف ریونیو کو خط لکھا جس میں پنجاب میں 10 لاکھ ایکڑ تک کی سرکاری اراضی ”کارپوریٹ ایگریکلچر فارمنگ“ کے لیے دینے کی درخواست کی گئی۔

اس خط میں جسے جیو نیوز نے بھی دیکھا ہے، پاکستانی فوج نے تیل اور خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو پاکستان کی معیشت اور اس کے زرعی شعبے کے لیے ایک سنگین چیلنج قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اسے ”بیکار بنجر زمینیں“ تیار کرنے کا تجربہ ہے۔

اس منصوبے کے لیے فوج نے 10 سے 15  ہزار ایکڑ سیراب شدہ اراضی کو فوری طور پر جاری کرنے ، اس کے بعد یکم مارچ تک 1لاکھ ایکڑ  اور  پھر اپریل تک بقیہ  10 لاکھ ایکڑ اراضی جاری کرنے کی تجویز پیش کی۔

ایک ماہ بعد پنجاب کے گورنر  اور  پاکستانی فوج نے ایک مشترکہ منصوبے پر دستخط کیے جس کے تحت پنجاب میں 10 لاکھ ایکڑ تک کی سرکاری اراضی فوج کو کارپوریٹ ایگریکلچر فارمنگ کے لیے 20 سال کی مدت کے لیے لیز پر دی جائے گی۔

اس معاہدے میں منافع کی تقسیم کے طریقہ کار کو بھی حتمی شکل دی گئی، جس کے تحت اس منصوبے سے حاصل ہونے والے منافع کا 20 فیصد تحقیق اور ترقی کے لیے استعمال کیا جائےگا، جب کہ بقیہ منافع کو حکومت پنجاب اور فوج کے درمیان برابر تقسیم کیا جائے گا۔

فیصلے میں لاہور ہائی کورٹ نے حساب لگایا ہے کہ صوبے میں 10 لاکھ ایکڑ اراضی ”پنجاب کے کل رقبے کا تقریباً 2فیصد“ بنتی ہے۔

یہاں تک کہ 10 مارچ کوسوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے ایک باضابطہ نوٹیفکیشن سے پہلےکسی بھی معلومات کوپبلک نہیں کیا گیا تھا۔ اس نوٹیفکیشن میں یہ انکشاف ہوا کہ حکومت پنجاب نے بھکر، خوشاب اور ساہیوال میں 45,267 ایکڑ  سرکاری  اراضی کارپوریٹ  فارمنگ  کے لیے فوج کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

نوٹیفکیشن کے منظر عام پر آنے کے فوراً بعد لاہور سے تعلق رکھنے والے وکلاء فہد ملک اور رافع عالم نےایک این جی او پبلک انٹرسٹ لاء ایسوسی ایشن آف پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے حکومت کےاس فیصلے کو چیلنج کیا اور لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی۔

ان وکلاء کا مؤقف تھا کہ نگران حکومت کی جانب سے اراضی کی فراہمی ”غیر آئینی اور غیر قانونی“ تھی، کیونکہ نگران حکومت کا دائرہ کار روزمرہ کے کام کرنے تک محدود تھا اور یہ کہ پاکستان کے آئین نے فوج کو تجارتی منصوبے شروع کرنے کی اجازت نہیں دی۔

23 مئی کو عدالت کے باہر رافع عالم نے جیو نیوز کو بتایا کہ پاکستان کی کسی بھی زراعت یا آب و ہوا سے متعلق پالیسیوں یا قوانین میں ”کارپوریٹ ایگریکلچر فارمنگ“ کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ” پاکستان نیشنل فوڈ سیکیورٹی پالیسی، پاکستان نیشنل کلائمیٹ چینج پالیسی اور صوبہ پنجاب کی اپنی زرعی پالیسی میں کہیں بھی ’کارپوریٹ ایگریکلچر فارمنگ‘ کے الفاظ استعمال نہیں کیے گئے ہیں۔“

پنجاب میں کارپوریٹ فارمنگ کا خیال کیسے آیا؟

عدالتی دستاویزات کے مطابق جون 2021ء میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے پاک چین اقتصادی راہداری (CPEC) کے تحت کارپوریٹ فارمنگ کے لیے سرکاری زمین لیز پر دینے کی سمری کی منظوری دی۔

چند ماہ بعد فروری 2022ء میں یہ تجویز پنجاب کابینہ کے سامنے رکھی گئی۔

اس کے بعد کابینہ نے ہدایت کی کہ زمین لیز پر دینے کے لیے شرائط و ضوابط کا مسودہ تیار کرنے کے لیے وزارت قانون، زراعت، خزانہ اور لائیو اسٹاک کے صوبائی وزراء پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے۔

بالآخر 14 اکتوبر 2022ء کو لاہور میں وزارتی کمیٹی کا ایک مبینہ اجلاس ہوا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پنجاب حکومت کے وکیل کی جانب سے عدالت میں جمع کرائی گئی دستاویزات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نہ تو اس میٹنگ کے منٹس ریکارڈ کیے گئے اور نہ ہی اس اجلاس میں شریک وزراء نے حاضری کی شیٹ پر دستخط کیے۔

جسٹس عابد حسین چٹھہ نے 29 مئی کو عدالت میں استفسار کرتے ہوئے کہا کہ ”یہ بہت عجیب بات ہے کہ وزیر (راجہ بشارت) نے (اپنی حاضری) پر دستخط تک نہیں کیے؟“

14 اکتوبر کا اجلاس انتہائی اہم تھا کیونکہ اس اجلاس میں زمین کو لیز پر دینے کے لیے شرائط و ضوابط میں ترمیم کی گئی تھی۔

اس دن سرکاری اہلکاروں نے شرائط و ضوابط میں ایک نیا سیکشن شامل کیا، جس کے تحت زمین کو سنگل سورس سے اور بغیر کسی نیلامی کے حکومت کے کسی محکمے کو لیز پر دینے کی اجازت دی گئی۔

اس (سیکشن ) نے پاکستانی فوج کے لیے اس سال فروری میں ”کارپوریٹ ایگریکلچرل فارمنگ“ کے لیے پنجاب میں 10 لاکھ ایکڑ تک کی سرکاری اراضی کی درخواست کرنے کی راہ ہموار کی۔

درخواست گزار کے وکیل فہد ملک نے بھی عدالت میں دلیل دی کہ نہ  تو آئین اور نہ ہی پاک فوج کی اپنی قانون سازی اسےکارپوریٹ ایگریکلچر فارمنگ یا کسی تجارتی منصوبے کی اجازت دیتی ہے۔

انہوں نے عدالت میں کہا کہ ”آئین کے آرٹیکلز 243، 244 اور 245  فوج کے آئینی کردار کو متعین کرتے ہیں اور  ان آرٹیکلز اور آرمی ایکٹ (1952) میں سے کوئی بھی ’زراعت‘ یا ’کارپوریٹ فارمنگ‘ کا کوئی حوالہ نہیں دیتے ہیں۔ “

پاک فوج کا نقطہ نظر کیا ہے؟

25 اپریل کو ہونے والی ایک پریس کانفرنس میں فوج کے میڈیا ونگ انٹر سروسز پبلک ریلیشنز کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل احمد شریف چوہدری سے فوج کی جانب سے کارپوریٹ فارمنگ کے لیے سرکاری زمین حاصل کرنے کی کوشش کے بارے میں پوچھا گیا۔

انہوں نے جواب دیا کہ ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک نے اپنے زرعی شعبے کو بہتر بنانے کے لیے اپنی فوجوں کو کسی نہ کسی طریقے سے استعمال کیا ہےلیکن ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ زمینوں کو مزید قابل کاشت بنانے میں فوج کیا کردار ادا کر سکتی ہے، اس بارے میں حتمی فیصلہ صوبائی اور وفاقی حکومت کا ہے۔

کیا واقعی زمین بنجر ہے؟

پنجاب حکومت بارہا عدالت میں دعویٰ کر چکی ہے کہ فوج کو جو زمین دی جا رہی ہے وہ درحقیقت ” بنجر “ اور ”فضول“ ہے، تاہم 25 فروری کو ہونے والے پنجاب کی نگران کابینہ کے اجلاس میں اس اراضی کو ”غیر استعمال شدہ یا غیر قانونی قبضہ والی زمین“ قرار دیا گیا۔

ساہیوال کے ایک کسان مرتضیٰ یاسین نےٹیلی فون پر جیو نیوز کو بتایا کہ انہوں نے زمین کے وہ حصے دیکھے ہیں جنہیں جنوبی پنجاب میں حاصل کرنےکی فوج کو امید ہے۔

مرتضیٰ یاسین کا کہنا تھا کہ ”کچھ علاقےجنہیں فوج حاصل کرنا چاہتی ہے، پہلے ہی 100 فیصد کاشت شدہ ہیں، میں نے کوئی بنجر زمین نہیں دیکھی۔“

جیو نیوز نے یکم جون کو پنجاب کےضلع بھکر میں ڈویژنل فارسٹ آفیسر ندیم اشرف وڑائچ سے بھی رابطہ کیا، انہوں نےبھی اس بات کی تصدیق کی کہ فوج کو جو اراضی منتقل کی جا رہی ہے اس میں محکمہ جنگلات کی زمین بھی شامل ہے۔

اس کے بعد انہوں نے فوج کو دی جانے والی محکمہ جنگلات کی زمین کا درست رقبہ بتانے کا وعدہ کیا، لیکن بعد میں انہوں نے جیو نیوز کی طرف سے بار بار بھیجے گئےمیسجزکاکوئی جواب نہیں دیا۔