23 جون ، 2023
15 اپریل 1912 کو رات کے 2 بج کر 20 منٹ پر برطانیہ سے امریکا کی جانب اپنا پہلا سفر کرنے والا بحری جہاز ٹائی ٹینک نیو فاؤنڈ لینڈ کے ساحل سے لگ بھگ 400 میل دور برفانی تودے سے ٹکرا کر ڈوب گیا۔
ٹائی ٹینک تیار کرنے والوں نے اسے کبھی نہ ڈوبنے والا جہاز قرار دیا تھا اور یہ اپنے عہد کا سب سے پرتعیش بحری جہاز بھی تھا۔
مگر یہ اپنے پہلے سفر کے دوران ہی بحر اوقیانوس میں غرق ہوگیا اور اس پر سوار ڈیڑھ ہزار افراد ہلاک ہوگئے۔
ٹائی ٹینک کا حادثہ جب سے لوگوں کے ذہنوں میں زندہ ہے اور اس پر سوار 700 افراد کو بچایا بھی گیا، مگر حیران کن طور پر حادثے کی جگہ کا اندازہ ہونے کے باوجود اس کا ملبہ 7 دہائیوں تک ڈھونڈا نہیں جا سکا تھا۔
ایک وقت تو ایسا بھی تھا جب خیال کیا جارہا تھا کہ اسے کبھی دریافت نہیں کیا جاسکے گا، مگر حادثے کے 73 سال بعد اس کا ملبہ امریکی بحریہ کے عہدیدار اور اوشین گرافر (بحری جغرافیہ کے ماہر) رابرٹ بیلارڈ اور ان کی ٹیم نے دریافت کیا۔
مگر ٹائی ٹینک کی تلاش کے برسوں بعد جو حقیقت سامنے آئی وہ بھی بہت زیادہ دلچسپ تھی۔
درحقیقت دنیا کے مشہور ترین بحری جہاز کے ملبے کی دریافت امریکی بحریہ کے ایک خفیہ مشن کا حصہ تھی جس کا بنیادی مقصد 2 گمشدہ جوہری آبدوزوں کا ملبہ تلاش کرنا تھا۔
اس مشن کی سربراہی رابرٹ بیلارڈ کو دی گئی تھی جو ٹائی ٹینک تلاش کرنا چاہتے تھے مگر بحریہ نے آبدوزوں کی تلاش کرنے کی ہدایت کی، البتہ آبدوزوں کو تلاش کرنے کے بعد مشن کے لیے مختص وقت میں ٹائی ٹینک کو تلاش کرنے کی اجازت دی گئی۔
عوام کے سامنے رابرٹ بیلارڈ کا بنیادی مشن یہ ظاہر کیا گیا کہ وہ ٹائی ٹینک تلاش کر رہے ہیں۔
1912 کے بعد سے ہی ٹائی ٹینک کی تلاش کی جا رہی تھی اور اس دوران متعدد مشنز کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
سمندر کی گہرائی، زیرآب مشکل ماحول اور پوزیشن کے حوالے سے متضاد رپورٹس کے باعث تمام کوششیں ناکام ہوئیں۔
رابرٹ بیلارڈ نے بھی 1977 میں ٹائی ٹینک کی تلاش کے ایک مشن کی سربراہی کی تھی مگر انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
اس کے باوجود انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور 1980 کی دہائی کے آغاز سے ہی دوسری مہم کے لیے کوشش کر رہے تھے۔
1982 میں انہوں نے فوجی حکام سے رابطہ کرکے submersible ٹیکنالوجی کے لیے فنڈز فراہم کرنے کی درخواست کی تاکہ وہ ٹائی ٹینک تلاش کر سکیں۔
امریکی بحریہ کے سب میرین وار فیئر پروگرام کے ایک عہدیدار نے اس درخواست پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم submersible کے لیے سرمایہ فراہم کریں گے مگر وہ ٹائی ٹینک کی تلاش کے لیے نہیں ہوگا۔
امریکی بحریہ یو ایس ایس تھریشر اور یو ایس ایس اسکارپین نامی جوہری آبدوزوں کو تلاش کرنا چاہتی تھی جو بالترتیب 1963 اور 1968 میں شمالی بحر اوقیانوس کی گہرائیوں میں کہیں گم ہو گئی تھیں۔
رابرٹ بیلارڈ کو ان آبدوزوں کے ملبے کی تصاویر لینے کا کام دیا گیا تاکہ معلوم ہو سکے کہ ان کے جوہری ری ایکٹرز کا کیا ہوا۔
اگر رابرٹ بیلارڈ اپنا مشن جلد مکمل کرلیتے تو پھر وہ ٹائی ٹینک کو بھی ڈھونڈنے کا کام کر سکتے تھے جس کے بارے میں خیال تھا کہ بحری جہاز کا ملبہ ان دونوں آبدوزوں کے درمیان کہیں موجود ہے۔
رابرٹ بیلارڈ نے کئی دہائیوں بعد ایک انٹرویو میں بتایا کہ 'بحریہ نے کبھی یہ توقع نہیں کی تھی کہ میں ٹائی ٹینک کو ڈھونڈ لوں گا، تو جب ایسا ہوا تو پبلسٹی کے خیال نے حکام کو نروس کر دیا تھا، مگر لوگوں نے کبھی ہمارے مشن کی حقیقت پر توجہ ہی مرکوز نہیں کی'۔
تو تلاش کیسے ممکن ہوئی؟
جب رابرٹ بیلارڈ بحر اوقیانوس کی گہرائی میں آبدوزوں کو تلاش کر رہے تھے تو انہوں نے دریافت کیا کہ سمندری کرنٹ سے بھاری اشیا تیزی سے ڈوبتی ہیں اور اپنے ملبے کی ایک لکیر پیچھے چھوڑ جاتی ہیں۔
یہ وہ دریافت تھی جس نے ٹائی ٹینک کی تلاش کو ممکن بنایا۔
2008 میں ایک انٹرویو کے دوران انہوں نے بتایا کہ 'مجھے احساس ہوا کہ یہ دریافت بہت بڑی پیشرفت ہے اور اگر میں ٹائی ٹینک کے ملبے کی لکیر ڈھونڈ لوں تو اس بحری جہاز کا ملبہ بھی مل سکتا ہے'۔
آبدوزوں کے مشن کو مکمل کرنے کے بعد رابرٹ بیلارڈ نے ٹائی ٹینک کی تلاش کا آغاز کیا۔
جس دن (یکم ستمبر 1985) دنیا کے مشہور ترین بحری ملبے کو دریافت کیا گیا، اس وقت رابرٹ بیلارڈ ایک تحقیقی جہاز پر سوار اپنے بستر پر لیٹے مشن کے ختم ہوتے وقت کے تناؤ سے محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہے تھے۔
اس وقت عملے کا ایک فرد کمرے میں آکر کہا کہ انہیں تحقیقی ٹیم بلا رہی ہے۔
جب رابرٹ بیلارڈ جہاز کے کنٹرول روم میں پہنچے تو ان کے ساتھیوں نے sonar ٹیکنالوجی اور کیمرے سے لیس زیرآب موجود روبوٹ کی دریافت دکھائی جو ٹائی ٹینک کا ایک بوائلر تھا۔
یعنی ٹائی ٹینک کے ڈوبنے کے 73 سال بعد آخرکار اس کا ملبہ دریافت کرلیا گیا تھا۔
رابرٹ بیلارڈ اور ان کی ٹیم اس موقع پر جشن منانا چاہتی تھی، جب انہیں احساس ہوا کہ رات کے 2 بج کر 20 منٹ ہوئے ہیں، یعنی وہ وقت جب ٹائی ٹینک ڈوب کر سمندر کی گہرائی میں پہنچا تھا۔
مشن سے واپسی پر رابرٹ بیلارڈ اور ان کی ٹیم کا زبردست استقبال ہوا۔
کافی عرصے بعد انہوں نے بتایا کہ 'ہم نے جہاز دریافت کرلیا تھا جو ہماری کامیابی تھی، مگر وہاں تک پہنچنا زیادہ خوفناک حصہ تھا'۔
اگرچہ ڈوبنے کے دوران ٹائی ٹینک 2 حصوں میں تقسیم ہو گیا تھا مگر اس کا ڈھانچہ قابل شناخت تھا۔
سمندر کی تہہ میں برتن، فرنیچر اور متعدد اشیا پھیلی ہوئی تھیں اور رابرٹ بیلارڈ کے مطابق وہ منظر کسی آسیب زدہ گھر جیسا تھا، جہاں ٹائی ٹینک کے ساتھ ڈوبنے والوں کی واحد نشانی چمڑے کے جوتوں کی شکل میں نظر آئی۔