26 جون ، 2023
اسلام آباد: سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف دائر درخواستوں پر تیسری سماعت کے موقع پر بینچ ایک بار پھر ٹوٹ گیا۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں7 رکنی بینچ نے آج درخواستوں پر سماعت کا آغاز کیا، جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منصورعلی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک بھی بینچ کا حصہ تھے۔
سماعت کا آغاز ہوا تو اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان روسٹرم پر آگئے اور وفاقی حکومت کی جانب سے جسٹس منصور علی شاہ پر اعتراض اٹھادیا۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ گزشتہ سماعت پر جسٹس منصورعلی شاہ نے پوچھا تھا کہ مجھ پر اعتراض تو نہیں، میں نےکہا تھا کہ جسٹس منصور علی شاہ پر اعتراض نہیں ہے، تاہم اب مجھے ہدایت ہےکہ جسٹس منصورعلی شاہ بینچ کا حصہ نہ ہوں۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال کا کہنا تھا کہ آپ کی مرضی سے بینچ نہیں بنایا جائےگا، کس بنیاد پر وفاقی حکومت جسٹس منصور پر اعتراض اٹھا رہی ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ مفادات کے ٹکراؤ کی وجہ سے اعتراض اٹھایا گیا ہے۔
سپریم کورٹ چھڑی کا استعمال نہیں کر رہی: چیف جسٹس
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جس جج پر اعتراض اٹھایا جا رہا ہے ان کی اہلیت پرکسی کو شک نہیں، حکومت نے پہلے بھی اس قسم کے اعتراضات اٹھائے ہیں، الیکشن کیس میں 90 دنوں پرکسی نے اعتراض نہیں کیا، بس بینچ پر اعتراض کیا گیا، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ ایک درویش صفت انسان ہیں، کیا جسٹس منصور، جسٹس جواد ایس خواجہ کو فائدہ دیں گے؟ کیا حکومت پھر بینچ کو متنازع کرنا چاہتی ہے؟ الیکشن کے حکم پر عمل درآمد نہ کرنے پر عدالت نے سخت ایکشن سے گریز کیا، سپریم کورٹ چھڑی کا استعمال نہیں کر رہی مگر دیگر لوگ کس حیثیت میں چھڑی کا استعمال کر رہے ہیں؟
ہمیں لائیک مائنڈڈ ججز کہہ کر پکارا جاتا رہا،چیف جسٹس برہم
چیف جسٹس اٹارنی جنرل پر برہم ہوگئے، ان کا کہنا تھا کہ آپ ایک اعلیٰ درجےکے وکیل ہیں، آپ پر عدالت کو اعتماد ہے، یہ ججز پر اعتراض کرنے کے تسلسل کی ایک کڑی ہے، پہلے حکومت نے بینچ کے تناسب کا معاملہ اٹھائے رکھا، بنیادی حقوق کے معاملےکو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، پارلیمنٹ میں ہمیں لائیک مائنڈڈ ججز کہہ کر پکارا جاتا رہا، حکومت کرنا کیا چاہتی ہے؟ ہم نے انتخابات کیس میں توہین عدالت کی کارروائی سے گریز کیا، اب ہم سمجھتے ہیں کہ وقت ایک قدم پیچھے ہٹنےکا ہے، حق اور سچ کی اخلاقی ذمہ داری اس عدالت کی ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وزیراعظم سے پوچھیں کہ کسی رشتہ داری کی بنیاد پر اعتراض کیوں اٹھایا گیا؟ جسٹس منصور علی شاہ بہت حساس ہیں، جسٹس منصور وہ انسان نہیں کہ ان کی رشتہ داری فیصلے پر اثر انداز ہو، سپریم کورٹ کو داغدار نہ کریں، تضحیک مت کریں، حکومت کیا پیغام دینا چاہتی ہے؟
بینچ ایک بار پھر ٹوٹ گیا
جسٹس منصور علی شاہ نے خود کو بینچ سے الگ کرلیا، ان کا کہنا تھا کہ میں مزید اس بینچ کا حصہ نہیں رہ سکتا،سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ میرے رشتہ دار ہیں۔
اعتزاز احسن کے وکیل لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ آج عدالتی تاریخ کا سیاہ دن ہے۔ وکیل سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ بنیادی حقوق کا کیس ہے، بینچ پر اعتراض نہیں بنتا، جسٹس منصور علی شاہ اپنے فیصلے پرنظرثانی کریں۔
جسٹس منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ میں اپنا کنڈکٹ اچھی طرح جانتا ہوں، کوئی ایک انگلی بھی اٹھا دے میں پھر کبھی اس بینچ کا حصہ نہیں رہتا۔
عمران خان کے وکیل حامد خان کا کہنا تھا کہ اس موقع پر اعتراض کی کوئی حیثیت نہیں۔ چیف جسٹس نےکہا کہ اب معزز جج خود ہی معذرت کرچکے ہیں۔
درخواست گزار کے وکیل فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ جسٹس ایم آر کیانی نے اپنے طلبا سے مذاق میں ایک بات کہی تھی،انہوں نےکہا تھا کہ کیس ہارنے لگو تو بینچ پر اعتراض کردو، وفاقی حکومت اب یہی کر رہی ہے۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال کا کہنا تھا کہ ہم ابھی اٹھ رہے ہیں، آپس میں مشاورت کے بعد آگےکا لائحہ عمل طے کریں گے۔
سپریم کورٹ کے ججز کمرہ عدالت سے اٹھ کر چلےگئے۔
وقفےکے بعد چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت شروع کی، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک بینچ کا حصہ ہیں۔
عمران خان کے وکیل حامد خان کا کہنا تھا کہ ہماری ایک درخواست پر نمبر نہیں لگا، ہم نے فوجی عدالتوں کو چیلنج کیا تھا۔
چیف جسٹس نےکہا کہ حامد خان صاحب،آپ کو بعد میں سنیں گے، جو صبح سیٹ بیک ہوا اس سے ری کور ہو رہے ہیں، آئینی بحث کے بجائے دیگر حربے استعمال کیے جا رہے ہیں۔
درخواست گزار جنید رزاق کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل کا آغاز کیا تو جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ پہلے دن کے سوال پر واپس جاؤں گی، آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 ڈی کا اطلاق کس پر ہوتا ہے؟ جسٹس منیب نے سوال کیا کہ کیا افواج کے اراکین کا بھی ملٹری کورٹس میں کورٹ مارشل نہیں ہوسکتا؟
وکیل سلمان اکرم کا کہنا تھا کہ برطانیہ اور امریکا میں بھی مخصوص حالات میں فوجی افسران کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوتے ہیں۔
جسٹس منیب نے سوال کیا کہ فوجی عدالتوں کے خلاف ہائی کورٹ میں آئینی درخواست کیوں دائر نہیں کی جاسکتی تھی؟ سلمان اکرم کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ فوجی عدالتوں کی حیثیت کا تعین نہیں کرسکتی۔
جسٹس منیب کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے ملزمان کے لیے انسداد دہشت گردی عدالت ہی فورم ہے۔ وکیل سلمان اکرم کا کہنا تھا کہ کسی عدالت میں ٹرائل ہو، شہری کو بنیادی حقوق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔
جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ آپ کی دلیل فورم سے متعلق ہے یا بنیادی حقوق کے معاملے پر؟
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ مفروضےکی بات کر رہے ہیں کہ جب ٹرائل ہوگا تو یہ ہونا چاہیے وہ ہونا چاہیے، ابھی تو ٹرائل شروع ہی نہیں ہوا،کارروائی کا آغاز ہی نہیں ہوا تو آپ کیوں ٹرائل میں شہری کے حقوق کی بات کر رہے ہیں؟
وکیل سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ میرے موکل کے بیٹےکا معاملہ ملٹری کورٹس میں ہے، ٹرائل آرٹیکل175 کے تحت تعینات کیا گیا جج کرسکتا ہے، ایف پی ایل ای کیس کا جب فیصلہ ہوا تب اختیارات کی تقسیم کا اصول واضح نہیں تھا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کسی بڑے تنازع میں نہ پڑیں، دلائل کو سادہ رکھیں تاکہ ہم کیس ختم کرسکیں، یہ بنیادی انسانی حقوق کا کیس ہے، آرمی ایکٹ کا سیکشن 2 ڈی سویلین کو بنیادی حقوق سے محروم نہیں کرسکتا، آرمی ایکٹ کا سیکشن 2 ڈی آئین سے تجاوز نہیں کرسکتا۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ بہتر نہ ہوگا کہ پہلے دیکھا جائے کہ سویلین پر آرمی ایکٹ سیکشن 2 ڈی کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں؟ اگر آپ بات پر آمادہ ہیں کہ آرمی ایکٹ کا اطلاق سویلین پر ہوتا ہے تو پھرکیس کیا ہے؟وکیل سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ میں سویلین میں ریٹائرڈ آرمی افسران بھی آتے ہیں۔جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ آپ آرمی ایکٹ کو چیلنج کر رہے ہیں اور سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی مخالفت نہیں کر رہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا کورٹ مارشل کا لفظ آرمی ایکٹ کے علاوہ کہیں استعمال ہوا؟ ملٹری کورٹس کے بارے میں بہت سے فیصلے ہیں، وہ دیکھنا چاہتے ہیں، جو کیس ملٹری افسران کے بارے میں نہیں اس میں انہیں کیوں لا رہے ہیں؟
آرٹیکل199 کا اطلاق کورٹ مارشل پر نہیں ہوتا: جسٹس منیب
سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ میرا فوکس صرف سویلین پر ہے۔ جسٹس منیب نےکہا کہ آرٹیکل199 کا اطلاق کورٹ مارشل پر نہیں ہوتا، آرٹیکل199 آرمی ایکٹ کے تحت سزاؤں پر لاگو ہوتا ہے پرکورٹ مارشل پر نہیں، جو افراد آرمی ایکٹ کے تحت ڈسپلن کی خلاف ورزی کرتے ہیں ان پر بنیادی حقوق کا اطلاق نہیں ہوتا؟ آپ کے دلائل کا مقصد سمجھنا چاہ رہے ہیں۔
سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ الزام کی بنیاد پر فوجی افسران یا سویلین پر آرمی ایکٹ 2 ڈی کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔
جسٹس عائشہ ملک نے سلمان اکرم راجہ سے سوال کیا کہ ملٹری کورٹ عدالت ہے یا نہیں؟ سلمان اکرام راجہ نے کہا کہ ملٹری کورٹ عدالت ہے جو سویلین کی زندگی اور آزادی چھیننےکا اختیار رکھتی ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ یعنی آپ کو صرف سویلین کے فوجی عدالت میں ٹرائل پر اعتراض ہے؟ سلمان اکرم کا کہنا تھا کہ امریکا میں معمول کی عدالتیں کام جاری نہ رکھ سکیں تب فوجی عدالتیں حرکت میں آتی ہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ امریکی قانون ان سویلین کے بارے میں کیا کہتا ہے جو ریاست کے خلاف ڈٹ جائیں؟ سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ امریکا میں سویلین کی غیر ریاستی سرگرمیوں پر بھی ٹرائل سول عدالتوں میں ہی ہوتا ہے۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال کا کہنا تھا کہ ہم آسٹریلیا یا جرمنی کی مثالوں پر نہیں چل سکتے۔ جسٹس مظاہرنقوی کا کہنا تھا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ ملٹری کورٹ متوازی نظام ہے جسے عدالت نہیں کہہ سکتے؟ وکیل سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ جی میں یہی کہہ رہا ہوں کیونکہ وہاں سویلین کو بنیادی حقوق نہیں ملتے، آرمی ایکٹ کے تحت ملٹری کورٹس میں ڈسپلن کی خلاف ورزی پر ٹرائل ہوتا ہے، سویلین کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ڈسپلن کی خلاف ورزی کا معاملہ نہیں۔
جسٹس منیب نے سوال کیا کہ ایمرجنسی نافذ اور بنیادی حقوق معطل ہوں تو پھر سویلین کا ملٹری ٹرائل ہوسکتا ہے؟وکیل سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ امریکی قانون اس پر بڑا واضح ہے۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ 21 ویں آئینی ترمیم کا فیصلہ دیکھیں، مسلح افواج پر ہتھیار اٹھانے والوں پر آرمی ایکٹ کے نفاذ کا ذکر ہے۔
سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ میں ریٹائرڈ آرمی افسران کے علاوہ سویلین کو بھی شامل کیا گیا ہے، سویلین کو آرمی ایکٹ کے دائرے میں شامل کیا گیا اس لیے قانون کو چیلنج کیا، عدالت پر چھوڑتا ہوں کہ سویلین کو آرمی ایکٹ کے دائرے میں ہونے کو کیسے دیکھتے ہیں۔
سلمان اکرم راجہ نے سپریم کورٹ کا اکیسویں آئینی ترمیم کا فیصلہ پڑھ کر سنایا۔
سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ سیکشن 2 ڈی اس لیے چیلنج کیا کہ اس کے تحت سویلین کا ٹرائل نہیں ہوسکتا، جنید رزاق کے بیٹے ارزم رزاق کو ایک الزام لگا کر اٹھایا گیا، میرے موکل کو بیٹے سے ملنےکی اجازت تک نہیں، خاندان کے افراد کو زیرحراست سے ملنےکی اجازت ہونی چاہیے۔
میرے موکل کا موقف ہے 9 مئی واقعات میں ملوث کسی کو رہا نہ کیا جائے: وکیل عمران خان
عمران خان کے وکیل عزیر بھنڈاری نے دلائل میں کہا کہ میرے موکل کا موقف ہے 9 مئی کے واقعات میں ملوث کسی کو رہا نہ کیا جائے، 9 مئی کے واقعات میں ملوث افراد کا قانون کے مطابق ٹرائل کیا جائے، میرے موکل کا نام کسی وجہ سے ٹی وی پر چلانے کی اجازت نہیں، پی ٹی آئی اور پارٹی چیئرمین نے بھی اسی کیس میں درخواستیں دائرکیں، پی ٹی آئی کا موقف سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی مقاصد اور خواہشات ہمارے سامنے بیان نہ کریں۔
اس پر عزیربھنڈاری کا کہنا تھا کہ میں سلمان اکرم راجہ کے دلائل اپناتا ہوں۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کو روسٹرم پر بلالیا اور کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب، ہمیں کچھ یقین دہانیاں چاہئیں، ملٹری ٹرائلز کا کیا بنا؟کیا کوئی پیشرفت ہوئی ہے؟
اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان نے جواب دیا کہ ابھی تحقیقات چل رہی ہیں، ممکن ہے تحقیقات کے دوران 102 افراد میں سے بہت سوں کو چھوڑ دیا جائے۔
جن افراد نے ممنوع مقامات پر حملہ نہیں کیا ان کو چھوڑ دیا جائےگا:اٹارنی جنرل
جسٹس مظاہرنقوی نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب، پک اینڈ چوز کے پیچھے کیا وجوہات کارفرما ہیں؟ اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جن افراد نے ممنوع مقامات پر حملہ نہیں کیا ان کو چھوڑ دیا جائےگا۔جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آپ یہ بیان اپنے موکل کی ہدایات پر دے رہے ہیں یا ذاتی بیان ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میں عدالت میں کوئی بھی بات ہدایات کے بغیر نہیں کرتا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ امید کرتا ہوں اس کیس کی سماعت کےدوران کسی کا ملٹری ٹرائل نہیں کیاجائےگا، جو افراد گرفتار کیے گئے ان کی مکمل تفصیلات فراہم کریں۔
کیس کی سماعت کل صبح ساڑھے 9 بجے تک بجے تک ملتوی کردی گئی۔
خیال رہے کہ اعتزاز احسن کے وکیل لطیف کھوسہ کے دلائل مکمل ہوچکے ہیں، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل احمد حسین اور سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی نے بھی دلائل مکمل کرلیے ہیں۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان، وزیراعظم شہباز شریف کے وکیل فروغ نسیم نے دلائل دینا ہیں۔
عدالت عظمیٰ نے چاروں صوبوں سمیت اسلام آباد سے گرفتار افراد کی تفصیلات طلب کی تھیں۔
9مئی واقعات کے 102ملزمان فوج کی تحویل میں ہیں: اٹارنی جنرل
گزشتہ سماعت میں اٹارنی جنرل نے 9 مئی کے بعد گرفتار افراد کے اعداد وشمار عدالت میں پیش کیے تھے، اٹارنی جنرل کی رپورٹ کے مطابق 9 مئی کے واقعات میں ملوث 102 ملزمان فوج کی تحویل میں ہیں۔ پنجاب حکومت نے بھی ایڈووکیٹ جنرل کے ذریعے گرفتار افراد کی فہرست سپریم کورٹ میں جمع کرائی ہے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت میں جواب جمع کرایا ہےکہ فوج کی تحویل میں کوئی خاتون،کم عمر افراد، صحافی یا وکیل نہیں ہے۔
یاد رہےکہ فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے چیف جسٹس پاکستان نے 9 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔
تاہم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود کے اعتراضات کے بعد 9 رکنی لارجر بینچ ٹوٹ گیا اور چیف جسٹس نے 7 رکنی نیا بینچ تشکیل دے دیا اور اب جسٹس منصور کی علیحدگی کے بعد7 رکنی بینچ بھی ٹوٹ گیا ہے۔
گزشتہ سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان نےکہا تھا کہ منگل تک کیس کا فیصلہ کر سکتے ہيں۔