Time 22 جون ، 2023
پاکستان

فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف درخواستوں پر بننے والا لارجر بینچ ٹوٹ گیا،7 رکنی نیا بینچ تشکیل

فوٹو: فائل
فوٹو: فائل

اسلام آباد: فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر  سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود کے اعتراضات کے بعد 9 رکنی لارجر  بینچ ٹوٹ گیا اور چیف جسٹس نے 7 رکنی نیا بینچ تشکیل دے دیا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 9 رکنی بینچ نے  فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت کا آغاز کیا، چیف جسٹس نے اس بار نامزد چیف جسٹس  قاضی فائز عیسیٰ کو بھی بینچ کا حصہ بنایا تھا۔

ان کے علاوہ  جسٹس سردار طارق مسعود،  جسٹس منصور  علی شاہ اور  جسٹس یحییٰ آفریدی ، جسٹس منیب اختر،  جسٹس عائشہ ملک اور  جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی بھی بینچ کا حصہ تھے۔

آج سماعت کا آغاز  ہوا تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل روسٹرم پر آئیں میں نے کچھ کہنا ہے، عدالت کو  اختیار سماعت آئین کا  آرٹیکل 175/2 دیتا ہے، میں اپنی قومی زبان اردو میں بات کروں گا، تعجب ہوا کہ کل رات8 بجے کازلسٹ میں میرا نام آیا، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر کوئی بات نہیں کروں گا۔

 جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجربل ابھی بنا نہیں تھا کہ 13 اپریل کو سپریم کورٹ کے9  رکنی بینچ  نےحکم امتناع دیا، سپریم کورٹ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجربل کی سماعت جولائی تک ملتوی کی، سپریم کورٹ رولز پڑھیں کیا کہتے ہیں، آئین سپریم کورٹ کو سماعت کا اختیار دیتا ہے، جج کا حلف کہتا ہےکہ آئین وقانون کے مطابق فیصلہ کروں گا، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایک قانون ہے، میں  سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجربل میں بینچ کا حصہ نہیں، کچھ نہیں کہوں گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے ایک ازخود نوٹس میرے بینچ میں سماعت کے لیے مقرر ہوا، میں نے اپنے فیصلے میں کہا کہ آئین کے آرٹیکل184/3 میں رولزبنائے جائیں، اس کے بعد  تعجب دکھ اور صدمہ ہوا کہ 31 مارچ کو عشرت علی صاحب نے  سرکلر جاری کیا، عشرت علی صاحب نے 31 مارچ کے سرکلرمیں کہا کہ سپریم کورٹ کے 15 مارچ کے حکم کو نظر انداز کریں، یہ وقعت تھی سپریم کورٹ کے فیصلےکی؟ پھرسپریم کورٹ نے6 ممبر بینچ  بنا کر سرکلر کی توثیق کی اور میرا فیصلہ واپس لیا، میرے دوست یقیناً مجھ سے قابل ہیں لیکن میں اپنے ایمان پر فیصلہ کروں گا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ اس 6 ممبر بینچ میں اگر نظرثانی تھی تو مرکزی کیس کا کوئی جج شامل کیوں نہیں تھا؟ میں نے 6 ممبر بینچ پر نوٹ تحریرکیا جسے سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر اپلوڈ کرنےکے بعد ہٹادیا گیا، چیف جسٹس نے 16 مئی کو  پوچھا کہ کیا میں چیمبر  ورک کرنا چاہتا ہوں یا نہیں؟ بتاتا ہوں کہ میں نے چیمبر  ورک کو ترجیح کیوں دی، ایک قانون بنادیا گیا بینچز کی تشکیل سے متعلق،  کسی پر انگلی نہیں اٹھا رہا لیکن میرے پاس آپشن تھا کہ  حلف کی پاسداری کروں یا عدالتی حکم پربینچ میں بیٹھوں، میری دانست میں قانون کو مسترد کیا جاسکتا ہے معطل نہیں کیا جاسکتا،  مجھ سے جب چیمبر ورک کے بارے میں دریافت کیا  گیا تو میں نے 5 صفحات پر مشتمل نوٹ لکھا۔

نامزد چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ چہ مگوئیوں سے بچنے کے لیے میں اس بات کا قائل ہوں کہ ساری بات کھلی عدالت میں ہونی چاہیے، اب تو نوٹ بھی ویب سائٹ سے ہٹائے جاتے ہیں اس لیے اپنا جواب یہیں پڑھ رہا ہوں، میں نے چیف جسٹس کو  لکھا کہ  نوٹ اپنے  تمام کولیگز کو  بھی بھیجا،  میں نے نوٹ  میں کہا کہ میرے ساتھیوں نے قانون معطل کرکے مجھے عجیب کشمکش میں ڈال دیا ہے، وفاقی حکومت نے میری سربراہی میں ایک انکوائری کمیشن تشکیل دیا، انکوائری کمیشن کو 19 مئی کو 5 رکنی بینچ نے کام کرنے سے روک دیا؟ میں نے انکوائری کمیشن میں نوٹس ہونے پر جواب بھی جمع کرایا۔

 میں اس بینچ کو "بینچ" تصور نہیں کرتا:جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ مجھے جو درخواست رات گئے موصول ہوئی اس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی بھی درخواست تھی، آج کازلسٹ میں آخر میں آنے والی درخواست سب سے پہلے مقرر کردی گئی، میں اس بینچ کو "بینچ" تصور نہیں کرتا، میں کیس سننے سے معذرت نہیں کر رہا، پہلے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجربل کا فیصلہ کیا جائے، میرا موقف یہ ہے کہ جب تک پریکٹس اینڈ پروسیجربل کو ٹھکانے نہ لگایا جائے تب تک میں کسی بینچ میں نہیں بیٹھ سکتا۔

'جب تک پریکٹس اینڈ پروسیجربل کا فیصلہ نہ ہو میں اس عدالت کو نہیں مانتا'

ان کا کہنا تھا کہ پہلے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجربل کا فیصلہ کیا جائے، بینچ سے اٹھ رہا ہوں کیس سننے سے معذرت نہیں کر رہا، میں اور جسٹس سردار طارق مسعود اس کشمکش میں تھے کہ کیس سننے سے معذرت کریں یا نہیں، سب سے معذرت چاہتا ہوں، میں بینچ سے اٹھ رہا ہوں،کیس سننے سے معذرت نہیں کر رہا، جب تک سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجربل کا فیصلہ نہ ہو میں اس عدالت کو نہیں مانتا۔

جسٹس سردار طارق مسعودکا بھی اعتراض 

اس موقع پر نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بعد سپریم کورٹ کے دوسرے سینیئر جج جسٹس سردار طارق مسعود کا کہنا تھا کہ میں بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے اتفاق کرتا ہوں، اس وقت ہم 9 ججز ہیں اور ہم فیصلہ کردیتے ہیں تو اس کیس میں اپیل پر فیصلہ کون کرے گا؟ جب تک ان قوانین کا فیصلہ نہیں ہوتا تب تک ہم بینچ میں نہیں بیٹھ سکتے۔

اعتزاز احسن کے وکیل لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ اگر آپ کیس نہیں سنیں گے تو 25 کروڑ عوام کہاں جائیں گے۔

جسٹس سردار طارق مسعود نےکہا کہ 25 کروڑ عوام کا خیال پہلے کیوں نہیں آیا؟ جب تک ان قوانین کا فیصلہ نہیں ہوتا تب تک ہم بینچ میں نہیں بیٹھ سکتے۔

اعتزاز احسن کی  جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے اپیل

درخواست گزار اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ یہ کیس سن لیجیے، میری استدعا ہے قاضی صاحب سے۔ اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ میں آپ کی بہت قدر کرتا ہوں، یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک بار میں اپنے حلف کی خلاف ورزی کردوں۔

اعتزاز احسن نےکہا کہ گھر کے تحفظ کے لیے کیس سن لیجیے، آپ سپریم کورٹ میں مل بیٹھ کر فیصلہ کرنے کے پابند ہیں، آپ میرے چھوٹے بھائی ہیں، اگر میں اتفاق بھی کروں تو کہوں گا آپ بینچ میں بیٹھ جائیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ بڑے قانون دان اور سینیئر ہیں، آپ کہتے ہیں میں اس بار اپنا حلف توڑدوں؟

عتزاز احسن نے کہا کہ آپ کا موقف درست ہے لیکن یہ ایک گھر کی مانند ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ اعتزاز صاحب یہ گھر نہیں سپریم کورٹ ہے، میں آئین اور قانون کے سائے میں بیٹھ کر فیصلے کرتا ہوں، میں بینچ سے اٹھ نہیں رہا، یہ عدالت ہی نہیں، جب تک پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر فیصلہ نہیں ہوتا تب تک ہر بینچ غیرقانونی ہے، آئین اور قانون کے تحت فیصلے کرنےکا حلف اٹھایا ہے۔

ممکن ہے پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر حکم امتناع ختم ہوجائے: چیف جسٹس

اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ اعتزاز صاحب ایسا نہ کریں، عدالت کے ڈیکورم کا خیال کریں، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر اٹارنی جنرل نےکہا ترامیم کر رہے ہیں، ہمارے لیے تمام فاضل جج صاحبان کی عزت و احترام ہے، ہم نے جو کیا آئین کے مطابق کیا، چاہتے ہیں فیصلے حق اور انصاف کے مطابق ہوں، چاہتے ہیں فیصلے مخلوق خدا کی خاطر ہوں،  دو معزز سینیئر ججز نے اعتراض کیا ہے، ممکن ہے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر حکم امتناع ختم ہوجائے، اس عدالت کی روایت کے مطابق 2 سینیئر ججز کے اعتراض کے بعد تکرار نہ کریں، آپ کےکیس کا کوئی اور حل کرتے ہیں، ہم نے بھی یہ بینچ آئین کے تحت قسم کے مطابق بنایا ہے، یہاں ہم مخلوق خدا کے حق میں فیصلے کرنے کے لیے بیٹھے ہیں۔

چیف جسٹس کے ریمارکس کے بعد بینچ اٹھ کر چلا گیا۔

سپریم کورٹ کا 9 رکنی بینچ ٹوٹ گیا، نیا بینچ تشکیل

اعتراض کرنے والے دونوں جج نئے بینچ میں شامل نہیں،فوٹو: فائل
اعتراض کرنے والے دونوں جج نئے بینچ میں شامل نہیں،فوٹو: فائل

چیف جسٹس عمر عطا بندیال  نےکیس کی سماعت کے لیے7 رکنی بینچ تشکیل دے دیا، اعتراض کرنے والے دونوں جج  جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اورجسٹس سردار طارق مسعود بینچ میں شامل نہیں۔

وقفےکے بعد سماعت کا آغاز ہوا تو بینچ میں شامل جسٹس منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ میں ایک درخواست گزار جواد ایس خواجہ کا رشتہ دار ہوں،کسی کو میری بینچ میں شمولیت پر اعتراض ہے تو ابھی بتادیں۔

اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ کسی کو آپ کی بینچ میں شمولیت پر کوئی اعتراض نہیں ہے، اٹارنی جنرل نےبھی کہا کہ آپ کے بینچ کا حصہ ہونے پرکوئی اعتراض نہیں ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ موسم گرماکی تعطیلات چل رہی ہیں اس لیےتمام فریقین دلائل مختصر رکھیں، چھٹیوں میں ہمارے بینچ دیگر رجسٹریز میں ہوتے ہیں۔

اعتزاز احسن کے وکیل لطیف کھوسہ نےکہا کہ ملک میں آرٹیکل 245 کا نفاذ کیا گیا ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا سویلینز کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں چل رہا ہے؟ اس پر وکیل لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ سویلینز کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں شروع ہوچکا ہے، قومی سلامتی کونسل کے اجلاس کے اعلامیے میں کہا گیا ہےکہ 9 مئی کے واقعات کے ناقابل تردید شواہد ہیں، سویلینز کا ٹرائل یا تو کوئی کرنل کرے گا یا بریگیڈیئر۔

جسٹس منصور کے استفسار پر لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ یہ آئی ایس پی آر کا ہی جاری اعلامیہ ہے،کابینہ نے آئی ایس پی آر کے اعلامیے کی توثیق کی، اس میں انسداد دہشت گردی عدالت سے درخواست کرکے سویلینز کے کیسز فوجی عدالتوں میں منتقل کرنے کا کہا گیا، جس نے بھی تنصیبات پرحملہ کیا ان سے میری کوئی ہمدردی نہیں ہے، جس نے جو جرم کیا ہے اس کو قانون کے مطابق سزا ملنی چاہیے۔

جسٹس مظاہرنقوی کا کہنا تھا کہ جو تمام مقدمات بنائےگئے انہیں سننےکا اختیار تو انسداد دہشت گردی عدالت کوپہلےہی حاصل ہے۔ لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ ہمارا یہی موقف ہےکہ کیسز انسداد دہشت گردی عدالت میں چلیں فوجی عدالتوں میں نہیں، 9 مئی کے واقعات کی آڑ میں نو دس ہزار افراد کو گرفتارکیا گیا۔

چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ ہم چاہ رہے ہیں کہ صرف حقائق میں رہیں،جو مقدمات درج ہوئے ان میں متعدد نام ہیں، مقدمات میں کچھ پولیس اہلکاروں کے نام کیوں شامل کیے گئے؟ جسٹس منصور نے پوچھا کہ کتنے لوگوں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے اور کتنے گرفتار ہوئے؟

وکیل لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ 10 مئی کو پہلے 50 افرادگرفتار کیےگئے، شاہ محمود قریشی، مراد سعید اور فرخ حبیب کے خلاف مقدمات درج ہوئے، پورے ملک سے 10 مئی کو 4 ہزار افراد گرفتار ہوئے، کسی فرد کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات درج نہیں۔

جسٹس مظاہر نقوی کا کہنا تھا کہ جو تمام مقدمات بنائےگئے ان کو سننے کا اختیار تو انسداد دہشت گردی عدالت کوپہلے ہی حاصل ہے۔لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ ہمارا یہی موقف ہےکہ کیسز انسداد دہشت گردی عدالت میں چلیں فوجی عدالتوں میں نہیں۔

جسٹس منصور نے سوال کیا کہ جو متاثرہ ہیں کیا ان میں سےکسی نے سپریم کورٹ سے براہ راست رجوع کیا؟ اس پر لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ میرے پاس اس قسم کی معلومات نہیں ہیں۔

اعتزاز احسن کے وکیل سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ میں نے درخواست دائر کی مگر فی الحال کسی متاثرہ شخص نے سپریم کورٹ سےرجوع نہیں کیا۔

جسٹس یحییٰ آفریدی کا کہنا تھا کہ جس قانون کے تحت فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہونا ہےکیا اس قانون کوکسی نے چیلنج کیا؟ جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ کیا فوجی عدالتوں سے متعلق قانون چیلنج ہوسکتا ہے؟

وکیل لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ اورآفیشل سیکرٹ ایکٹ کے خلاف مقدمہ کون سنے گا؟ جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ آپ ہمیں آرمی ایکٹ اور ملٹری کورٹس کے رولز بتائیں ، ہمارے پاس اس سے متعلق کوئی کتاب نہیں۔

جسٹس منصور نے سوال کیا کہ سویلینز کےکیس فوجی عدالتوں میں منتقلی کی دی گئی درخواست دکھادیں۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے سوال کیا کہ کتنے لوگوں کے نام کورٹ مارشل کے لیے بھیجے گئے ہیں؟کوئی قانون یا ٹھوس بات بتائیں کس بنیاد پرسزائیں ہو رہی ہیں؟

جسٹس منصور کا کہنا تھا کہ مجسٹریٹ یاعدالت کو درخواست دی جاتی ہےکہ ان افراد کو ہم آرمی ایکٹ کےٹرائل میں لے جانا چاہتے ہیں، عدالت نے کسی بنیاد پر تو مقدمات فوجی عدالتوں میں منتقل کرنےکی اجازت دی ہوگی۔

جسٹس عائشہ ملک نےکہا کہ آرمی ایکٹ سویلینز پر قابل عمل نہیں تو اے ٹی سی کے مقدمات فوجی عدالت کیسے منتقل کرنےدیے؟

جسٹس منصور نے کہا کہ کس قانون اور بنیاد پر سویلینز کے مقدمات فوجی عدالتوں میں منتقل کرنےکی اجازت دی گئی؟ انسداد دہشت گردی عدالت یہ بھی کہہ سکتی ہےکہ ہم ان افراد کو فوجی عدالتوں کے حوالے نہیں کرسکتے۔

لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ انسداد دہشت گردی عدالت میں تو کوئی پیش نہیں ہوا، یہی تو کہہ رہا ہوں، یہی سوال آپ کے سامنے لے کر آئے ہیں کہ کیسے سویلینز کو فوجی عدالتوں میں بھیجا رہا ہے۔

جسٹس منصور نے استفسار کیا کہ کیا انسداد دہشت گردی عدالت میں بحث ہوئی کہ کیوں فوجی عدالتوں میں مقدمات منتقل کیے جائیں؟ اس پر لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ جب فارمیشن کمانڈرز اور کابینہ سے منظوری ہو تو 25 کروڑ عوام کہاں جائیں گے؟

جسٹس منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ کیا حکومت کا پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ اس کو چیلنج نہیں کرے گا؟ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ یہ دکھادیں آرمی ایکٹ میں کہاں ہےکہ کن حالات میں سویلینز کا ٹرائل ہوسکتا ہے، آرمی ایکٹ میں کہاں لکھا ہےکہ سزا کتنی ہوگی؟

وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ آرمی ایکٹ میں کہیں سویلینز کے ٹرائل کا ذکر نہیں۔

سول قانون میں آرمی ایکٹ سے زیادہ سخت سزائیں ہیں:جسٹس منصور

جسٹس منصور نے کہا کہ میرے خیال میں تو ہمارے سول قانون میں آرمی ایکٹ سے زیادہ سخت سزائیں ہیں، اگرپوچھا جائے کہ فوج سے سزا چاہیے یا سول عدالتوں سے تو لوگوں کا رش لگ جائےگا۔

چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ ہم آرمی ایکٹ پر پرانے فیصلوں کو بھی دیکھیں گے۔

جسٹس منصور نے سوال کیا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کیا کہتا ہے کہ کون سے جرائم پر فوجی ٹرائل ہوگا؟ اس پر لطیف کھوسہ نےکہا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں فوجی تنصیب پر حملےکا ذکر ہے لیکن یہ کورکمانڈر ہاؤس تھا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا تھا کہ فوجی عدالتوں میں انڈر ٹرائل پربنیادی حقوق کا اطلاق نہیں ہوگا، دیکھنا ہوگا کہ سپریم کورٹ نے وہ فیصلہ کس بنیاد پر دیا تھا۔

جس نے پریس کانفرنس کی اسے چھوڑدیا جس نے نہیں کی اسے پکڑلیا:لطیف کھوسہ

لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ اس طرح کے ٹرائلز سے عالمی سطح پر بھی ملک کی بدنامی ہوتی ہے، یہاں یہ ہوا جس نے پریس کانفرنس کی اس کو چھوڑ دیا جس نے نہیں کی اسے پکڑلیا، ہمارے گھروں پر حملے ہو رہے ہیں، میرے گھر پر حملہ ہوا ہے، سویلین کے فوجی ٹرائل پر امتناع دے دیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہر چیز حکم امتناع سے درست نہیں کی جاسکتی، امید ہے ابھی تک ملٹری ٹرائل شروع نہیں ہوا ہوگا۔

جسٹس منیب کا کہنا تھا کہ ملزمان کی حوالگی سے پہلے متعلقہ عدالت کو دائرہ اختیار دیکھنا چاہیے تھا، دائرہ سماعت نہ ہو تو عدالت ملزمان کی حوالگی سے انکار کرسکتی ہے، عدالت کہہ سکتی ہے یہ جرم فوجی عدالت کے زمرے میں نہیں آتا۔

جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ سیکشن 549 میں تو ہےکہ متعلقہ افراد کو ان کے ڈیپارٹمنٹ کے حوالےکیا جائے، صرف فوجی افسران کی حوالگی ضابطہ فوجداری کے تحت ہوسکتی ہے۔

کوئی بھی کورٹ ہو ملزم کو وکیل کے ذریعے دفاع کا موقع ملنا چاہیے:چیف جسٹس

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلالیا، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ چاہے سول کورٹ ہویا فوجی عدالت، ملزم کو وکیل کے ذریعے دفاع کا موقع ملنا چاہیے، یہاں وکیلوں کو ہی اٹھایا جا رہا ہے، وکلا کو ہراساں کیا جانا کسی صورت قابل قبول نہیں ہے، لطیف کھوسہ کےگھرپرحملہ ہوا، عزیربھنڈاری کو چند گھنٹےکے لیے غائب کیا گیا۔

اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان کا کہنا تھا کہ کسی بھی وکیل کو ہراساں کرنا غلط ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ دوسرا طبقہ صحافی ہیں، صحافی آزاد نہیں ہیں اور یہ ٹھیک نہیں ہے،کیس کو جلد نمٹانا چاہتے ہیں،کوئی حکم امتناع جاری نہیں کر رہے، اس کیس کو سننے والا بینچ اب یہی رہےگا، اگربینچ کا ایک بھی ممبر نہ ہو تو سماعت نہیں ہوسکے گی، تمام فریقین اپنے دلائل تحریری طورپرجمع کرادیں۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ بتائیں کہ کتنے افراد کو اب تک گرفتارکیا گیا اور انہیں کہاں رکھا گیا؟ خواتین کو کہاں رکھا جا رہا ہے؟ بچوں کو بھی گرفتارکیا گیا ہے؟ پورا معاشرہ ٹراما کا شکار ہے، لوگوں کی گفتگو ریکارڈ کی گئی،ان کی ذاتیات میں مداخلت کی گئی، یہ عوام کی آزادی کا معاملہ ہے، ان سے پوچھیں کہ کتنے افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، تمام گرفتار افرادکے درست اعدادوشمار پیش کیے جائیں۔

کیس کی سماعت کل صبح 9:30 بجے تک ملتوی کردی گئی۔

پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کیا ہے؟

اس بل کو قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور کرائے جانے کے بعد دستخط کے لیے صدر کو بھیجا گیا تھا۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے تحت سو موٹو نوٹس لینےکا اختیار اب اعلیٰ عدلیہ کے 3 سینئر ترین ججز کے پاس ہوگا۔بل کے تحت سپریم کورٹ کے سامنے ہر معاملے اور اپیل کو کمیٹی کا تشکیل کردہ بینچ سنے اور نمٹائےگا جب کہ کمیٹی میں چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججز ہوں گے اور کمیٹی کا فیصلہ اکثریت رائے سے ہو گا۔

آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت معاملہ پہلے کمیٹی کے سامنے پیش کیا جائے گا، بنیادی حقوق سے متعلق عوامی اہمیت کے معاملے پر3 یا اس سے زائد ججزکا بینچ بنایا جائے گا، آئین اور قانون سے متعلق کیسز میں بینچ کم از کم 5 ججز پر مشتمل ہو گا جب کہ بینچ کے فیصلے کے 30 دن کے اندر اپیل دائر کی جاسکے گی، دائر اپیل 14 روز میں سماعت کے لیے مقرر  ہوگی، زیر التوا  کیسز میں بھی اپیل کا حق ہوگا، فریق اپیل کے لیے اپنی پسند کا وکیل رکھ سکتا ہے۔

اس کے علاوہ ہنگامی یا عبوری ریلیف کے لیے درخواست دینےکے 14 روزکے اندر کیس سماعت کے لیے مقرر ہوگا۔

 فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف درخواستیں

سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، سینیئر وکیل اعتزاز احسن، کرامت علی اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے درخواستیں دائر کر رکھی ہیں، درخواست گزاروں نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینے کی استدعا کر رکھی ہے۔

گزشتہ روز سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواست وکیل عزیر چغتائی کے توسط سے دائر کی تھی جس میں وزارت قانون، وزارت دفاع، پنجاب، خیبرپختونخوا، سندھ اوربلوچستان کی صوبائی حکومتوں کوبھی فریق بنایا گیا۔

درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ میرا مقصد کسی جماعت یا ادارے کی حمایت یا حملے کو سپورٹ کرنا نہیں، اس مقدمے میں کوئی ذاتی مفاد وابستہ نہیں، درخواست گزار کا مقصد  مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث مشتبہ افراد کوبری کرانا نہیں۔

مؤقف میں کہا گیا ہےکہ درخواست گزار ملزمان کے کسی فعل کی حمایت نہیں کرتا، عام شہریوں کے خلاف کیس چلانے کا فورم کرمنل کورٹس ہیں، کورٹ مارشل کی کارروائی صرف مسلح افواج کے اہلکاروں کے خلاف ہوسکتی ہے، کورٹ مارشل کا مقصد افواج میں نظم وضبط کو  برقرار  رکھنا ہوتا ہے، فوجی عدالتوں میں اس سویلین کا ٹرائل ہوسکتا ہے جو فوج میں حاضرسروس سویلین ملازم ہوں۔

درخواست کے متن کے مطابق فوجی عدالتوں کے فیصلوں کا بنیادی حقوق پر براہ راست اثر پڑے گا۔

درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عام عدالتیں ہوتے ہوئے فوجی عدالتوں کے ذریعے سویلینز  کا  ٹرائل غیرآئینی قرار  دیا جائے  اور  انہیں کارروائی روکنے  اور  کوئی بھی حتمی فیصلہ  جاری کرنے سے روکنے کا حکم دیا جائے۔

خیال رہے کہ جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ 17 اگست 2015 سے 9 ستمبر 2015 تک  چیف جسٹس پاکستان رہے ہیں، وہ پاکستان کے 23 ویں چیف جسٹس تھے۔


مزید خبریں :