وہ شخص جس کی ہچکیاں 68 سال تک رک نہیں سکیں

یہ ایک عجیب کیس تھا جس کی مثال نہیں ملتی / فائل فوٹو
یہ ایک عجیب کیس تھا جس کی مثال نہیں ملتی / فائل فوٹو

ہچکیوں کا سامنا تو ہر ایک کو ہی ہوتا ہے جس کے بارے میں کچھ افراد کو لگتا ہے کہ انہیں کوئی یاد کر رہا ہے۔

ہچکی ہمارے جسم کے نچلے حصے یعنی پردہ شکم سے شروع ہوکر منہ تک پہنچتی ہے۔

عموماً ہچکیاں چند منٹ کے اندر تھم جاتی ہیں مگر کیا آپ کو معلوم ہے کہ ایک کیس ایسا بھی ہے جب ایک فرد کی ہچکیاں 68 سال تک رک نہیں سکی تھیں؟

جی ہاں واقعی امریکی ریاست آئیووا سے تعلق رکھنے والے چارلس اوسبرن نامی شخص کے ساتھ ایسا ہوا۔

چارلس اوسبرن ایک کاشتکار تھے اور 1922 میں وہ ایک جانور کو کھینچ کر لے جا رہے تھے۔

اس جانور نے خود کو آزاد کرانے کے لیے ٹانگ چلائی جس کی شدت کے باعث چارلس اوسبرن زمین پر گر گئے۔

اس واقعے کے فوری بعد کاشتکار کو کچھ خاص محسوس نہیں ہوا، کم از کم اس وقت تک جب تک وہ کھڑے نہیں ہوگئے۔

مگر جب وہ کھڑے ہوئے تو ان کی زندگی کے بھیانک خواب کا آغاز ہوا جو 68 سال تک برقرار رہا۔

اس موقع پر ہچکیوں کا آغاز ہوا تھا اور دن، ہفتے اور مہینے گزرتے گئے مگر وہ ہچکیاں تھم نہیں سکیں۔

اس عہد میں طبی سائنس موجودہ عہد جتنی پیشرفت نہیں کر سکی تھی اور ڈاکٹروں کے ہاتھوں مریضوں کی ہلاکتیں بھی ہوتی تھیں۔

مگر حالت اتنی بھی خراب نہیں تھی کہ چارلس اوسبرن کی ہچکیوں کا علاج نہ ہو پاتا مگر کوئی بھی ڈاکٹر ان کا علاج کرنے میں ناکام رہا۔

ڈاکٹروں کا ماننا تھا کہ گرنے کے دوران کاشتکار کے دماغ کے اس حصے کو نقصان پہنچا جو ہچکیوں کے حوالے سے ردعمل ظاہر کرتا ہے۔

ہچکیوں کے اثر کو کم کیسے کیا؟

1922 سے 1990 تک ہچکیوں کا سلسلہ تھما نہیں۔

اس عرصے میں متعدد بار علاج سے ہچکیاں عارضی طور پر تھم گئیں مگر جب بھی وہ اسپتال سے گھر واپس پہنچتے تو ہچکیاں شروع ہو جاتیں۔

ایک انٹرویو میں انہوں نے بایا کہ دن رات ہر منٹ 20 سے 40 منٹ تک ہچکیاں آتی ہیں، یہاں تک کہ نیند کے دوران بھی ایسا ہوتا ہے جبکہ کھانے کا مزہ بھی اس کی وجہ سے خراب ہو جاتا ہے۔

وقت گزرنے کے ساتھ چارلس اوسبرن نے تسلیم کرلیا کہ اب ہچکیاں ان کی زندگی کا ایک حصہ بن چکی ہیں اور اب اس کے ساتھ ہی زندگی گزارنا ہوگی۔

یہی وجہ ہے کہ انہوں نے سانس لینے کا ایسا طریقہ کار اپنا لیا جس سے ہچکیوں کے اثرات کو کم از کم کیا جا سکے۔

مگر پھر فروری 1990 میں جب چارلس اوسبرن نے ہچکیوں کو روکنے کی تمام کوششوں کو چھوڑ دیا تھا تو کسی نامعلوم وجہ سے ہچکیاں آخرکار تھم گئیں جس کے ایک سال بعد یعنی 1991 میں چارلس اوسبرن انتقال کرگئے۔

گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں بھی ان کا نام طویل ترین عرصے تک ہچکیاں لینے والے شخص کی حیثیت سے درج ہے۔

مزید خبریں :