14 ستمبر ، 2023
صدر مملکت عارف علوی کے عام انتخابات کی تاریخ سے متعلق خط کو قانونی ماہرین نے غیر آئینی، مبہم اور غیر ضروری قرار دے دیا۔
صدر پاکستان کےچيف الیکشن کمشنر کو لکھے خط کے حوالے سے بات چیت کے دوران پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ خط منصب صدارت کے شایان شان نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ صدر نے اپنی جماعت کے دباؤ کے باعث خط لکھ کر درمیانی راستہ نکالا ہے، اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔
سابق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کا کہنا تھا کہ خواہش کا اظہار اور بات ہے، الیکشن کرانا صرف اور صرف الیکشن کمیشن کا کام ہے۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے، صدرمملکت اُسے ڈائریکٹ نہیں کر سکتے۔
اسی حوالے سے سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر کا کہنا تھا کہ پارلیمانی جمہوریت میں صدر مملکت خود سے کچھ نہیں کرسکتے، صدر مملکت کو الیکشن کمیشن کے کاموں میں مداخلت کا اختیار نہیں۔
ماہرِ قانون حافظ احسان ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ صدرمملکت کا خط لکھنا معاملے کو سیاسی رنگ دینا ہے، اس خط سے ملک میں جاری بحران میں مزید اضافہ ہوگا۔
واضح رہے کہ صدر عارف علوی نے چيف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کے نام خط لکھا ہے جس میں کہا ہے کہ میں نے9 اگست کو وزیراعظم کےمشورے پرقومی اسمبلی کو تحلیل کیا۔
خط میں کہا گیا ہے کہ صدر کا اختیار ہے عام انتخابات کیلئے 90 دن کے اندر کی تاریخ مقررکرے، آئینی ذمہ داری پوری کرنے کی خاطر چیف الیکشن کمشنر کو ملاقات کیلئے مدعو کیا گیا تاکہ آئین اور اس کے حکم کو لاگو کرنے کا طریقہ وضع کیا جا سکے۔
صدر مملکت نے خط میں مزید کہا ہے کہ اگست میں مردم شماری کی اشاعت کے بعد حلقہ بندیوں کا عمل بھی جاری ہے، آئین کے آرٹیکل 51(5) اور الیکشن ایکٹ کے سیکشن 17 کے تحت یہ لازمی شرط ہے، وفاقی وزارت قانون وانصاف بھی الیکشن کمیشن آف پاکستان جیسی رائےکی حامل ہے۔
ان کا خط میں کہنا تھاکہ چاروں صوبائی حکومتوں کا خیال ہے انتخابات کی تاریخ کا اعلان الیکشن کمیشن کا مینڈیٹ ہے، آئین کےآرٹیکل 48(5) کے تحت صدر کا اختیار ہے اسمبلی تحلیل کی تاریخ سے 90 دن کے اندر کی تاریخ مقرر کرے۔