22 ستمبر ، 2023
کینیڈا کے سرکاری نشریاتی ادارے نے کہا ہے کہ حکومت کے پاس ایسے شواہد موجود ہیں جو سکھ علیحدگی پسند رہنما کا قتل بھارتی حکام اور سفارتکاروں سے جوڑتے ہیں۔
کینیڈین براڈ کاسٹنگ کارپوریشن (سی بی سی) نے ایک رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا۔
رپورٹ کے مطابق ہردیپ سنگھ کے قتل کے بعد کئی ماہ تک جاری رہنے والی تحقیقات کے دوران بھارتی حکام بشمول کینیڈا کے اندر کام کرنے والے بھارتی سفارتکاروں کے رابطوں کی تفصیلات بھی جمع کی گئی تھیں۔
رپورٹ میں سکیورٹی ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا کہ بھارتی حکام نے کینیڈین عہدیداران کے ساتھ بند کمروں کی ملاقاتوں میں قتل کے الزامات کی تردید نہیں کی۔
رپورٹ کے مطابق کینیڈا کو کچھ شواہد اہم اتحادی ملک کی جانب سے فراہم کیے گئے ہیں مگر اس کا نام نہیں بتایا گیا۔
سی بی سی کی رپورٹ اس وقت سامنے آئی ہے جب کینیڈین حکومت پر دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ بھارتی حکومت پر عائد کیے جانے والے الزامات کے حوالے سے ٹھوس شواہد پیش کرے۔
21 ستمبر کو نیویارک میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا تھا کہ ہمارے پاس ٹھوس ثبوت موجود ہیں کہ بھارت کے ایجنٹ کینیڈا کی سرزمین پر ایک کینیڈین شہری کے قتل میں ملوث ہیں۔
جسٹن ٹروڈو کا کہنا تھا کہ سکھ علیحدگی پسند رہنما ہردیپ سنگھ کا قتل ایک سنگین معاملہ ہے، سکھ رہنما کے قتل کے معاملے کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے اور ہم یہی کر رہے ہیں۔
انہوں نے بھارت سے تحقیقات میں تعاون کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ کینیڈا کی جانب سے شواہد کو جاری نہیں کیا جائے گا۔
دوسری جانب امریکا کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے 21 ستمبر کو کہا تھا کہ کینیڈا کی جانب سے عائد کردہ الزامات باعث تشویش ہیں۔
انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکا نے بھارت کے ساتھ یہ معاملہ اعلیٰ ترین سطح پراٹھایا ہے، امریکا چاہتا ہےکہ تحقیقات آگے بڑھے اور قتل میں ملوث افراد انصاف کے کٹہرے میں لائے جائیں۔
جیک سلیوان نے واضح کیا کہ اس معاملے میں امریکا کی دلچسپی صرف اس لیے ختم نہیں ہوجائے گی کہ یہ بھارت سے جڑا ہے جس سے امریکا اپنا قریبی تعلق چاہتا ہے تاہم یہ ایک ایسی بات ہے جو امریکا انتہائی سنجیدگی سے لیتا ہے اورخواہ کوئی بھی ملک ہو، ایسے عمل پر کوئی استشنیٰ نہیں دیا جاسکتا۔
واضح رہے کہ خالصتان کے حامی سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کو کینیڈا میں 18 جون کو گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا تھا ۔
18 ستمبر کو پہلی بار کینیڈا کی حکومت نے اس قتل میں بھارت کے ملوث ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔
اس موقع پر جسٹن ٹروڈو نے کہا تھا کہ کینیڈین انٹیلی جنس نے ہردیپ کی موت اور بھارتی حکومت کے درمیان تعلق کی نشاندہی کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ جی 20 اجلاس میں بھارتی وزیراعظم مودی کے ساتھ اٹھایا تھا، کینیڈین سرزمین پرشہری کے قتل میں غیرملکی حکومت کا ملوث ہونا ہماری خودمختاری کیخلاف ہے۔
اس کے بعد کینیڈا نے بھارتی سفارتکار کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا جبکہ کینیڈا میں بھارتی خفیہ ایجنسی را کےسربراہ کو ملک بدر کر دیا۔
بعد ازاں بھارت نے کینیڈا کا الزام مسترد کرتے ہوئے جوابی کارروائی میں سینئر کینیڈین سفارتکار کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا تھا۔