Time 11 دسمبر ، 2023
پاکستان

تاحیات نا اہلی پر سپریم کورٹ کا فیصلہ اور الیکشن ایکٹ ایک ساتھ نہیں چل سکتے: چیف جسٹس

تاحیات نا اہلی پر سپریم کورٹ کا فیصلہ اور الیکشن ایکٹ ایک ساتھ نہیں چل سکتے: چیف جسٹس کے سماعت کے دوران ریمارکس/ فائل فوٹو
تاحیات نا اہلی پر سپریم کورٹ کا فیصلہ اور الیکشن ایکٹ ایک ساتھ نہیں چل سکتے: چیف جسٹس کے سماعت کے دوران ریمارکس/ فائل فوٹو

اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ایک کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ  پارلیمنٹ کی قانون سازی چلےگی یاسپریم کورٹ کا فیصلہ، اونٹ کسی کروٹ تو بیٹھنا ہے جب کہ تاحیات نا اہلی پر سپریم کورٹ کا فیصلہ اور الیکشن ایکٹ ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل بینچ نے میربادشاہ قیصرانی کی نااہلی کے کیس کی سماعت کی جس میں عدالت نے تاحیات نااہلی کی مدت تعین کا معاملہ لارجزبینچ میں مقرر کرنے کے لیے ججز کمیٹی کو بھجوادیا۔

عدالت نے کہا کہ موجودہ کیس انتخابات میں تاخیر کے آلےکے طورپراستعمال نہیں کیاجائےگا، موجودہ کیس کا نوٹس انگریزی کے دوبڑے اخبارات میں شائع کیاجائے۔

عدالت نے تاحیات نااہلی کے معاملے پر سپریم کورٹ کےفیصلے اور الیکشن ایکٹ کی ترمیم میں تضاد پرنوٹس لیا جو میر بادشاہ قیصرانی کی تاحیات نااہلی کے کیس میں لیا گیا۔

سماعت کے دوران تاحیات نااہلی سے متعلق پاناما کیس اور الیکشن ایکٹ میں ترامیم زیر بحث آئیں جس دوران جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ موجودہ کیس 2018 کے انتخابات سے متعلق ہے، اب نئے انتخابات سر پر ہیں تو یہ لائیو ایشو کیسے ہے؟

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ میر بادشاہ قیصرانی کو نااہل کیوں کیا گیا؟ اس پر وکیل درخواستگزار نے کہا کہ میربادشاہ قیصرانی کو جعلی ڈگری کی بنیاد پر 2007 میں نااہل کیا گیا  لیکن ہائیکورٹ نے 2018 کے انتخابات لڑنے کی اجازت دے دی، میربادشاہ قیصرانی کو آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل کیا گیا تھا۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اگر کسی کی سزا ختم ہو جائے توتاحیات نااہلی کیسے برقرار رہ سکتی ہے؟ اس پر وکیل درخواستگزار نے کہا کہ جھوٹے بیان حلفی پرکاغذات نامزدگی جمع کرانے والےکو نااہل ہی ہونا چاہیے، سپریم کورٹ نے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح پرپاناماکیس میں فیصلہ دے دیا تھا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ سپریم کورٹ کی تاحیات نااہلی پر دو آرا ہیں، نیب کیسز میں اگر تاحیات نا اہلی کی سخت سزا ہے تو قتل کی صورت میں کتنی نااہلی ہوگی؟ اس پر وکیل درخواستگزار نے کہا کہ قتل کے جرم میں بھی سیاستدان کو نااہلی 5 سال ہی کی ہوگی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ تاحیات نااہلی اور آرٹیکل 62 ون ایف سے متعلق کوئی نیا قانون بھی آچکا ہے؟ وکیل درخواستگزار نے بتایا کہ حال ہی میں الیکشن ایکٹ میں ترمیم کرکے نااہلی کی زیادہ سے زیادہ مدت 5 سال کردی گئی ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ الیکشن ایکٹ میں سیکشن 232 شامل کرکے سپریم کورٹ کا آرٹیکل 62 ون ایف کا فیصلہ غیر مؤثر ہوچکا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کسی نے چیلنج نہیں کیں، جب الیکشن ایکٹ میں ترمیم چیلنج نہیں ہوئیں تو دوسرا فریق اس پر انحصار کرےگا، الیکشن ایکٹ میں آرٹیکل 232 شامل کرنے سے تو تاحیات نااہلی کا تصور ختم ہوگیا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ انتخابات سر پر ہیں، ریٹرننگ افسر، الیکشن ٹریبونل اور عدالتیں اس مخمصے میں رہیں گی کہ الیکشن ایکٹ پر انحصارکریں یا سپریم کورٹ کے فیصلے پر۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت پر آئین خاموش ہے، آرٹیکل 63 ون جی میں پاکستان کی تباہی کرنے والے کی نااہلی 5 سال ہے، آرٹیکل 63 ون ایچ میں اخلاقی جرائم پرنااہلی 3سال ہے، اصل نااہلی تو آرٹیکل 63 میں ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پاکستان کی تباہی کرنے والےکو دوبارہ سیاست میں آناہی نہیں چاہیے مگرپاکستان کی تباہی کرنے والےکی نااہلی بھی 5 سال ہے، آئین کی زبان کو دیکھنا ہوتا ہے، ہر چیز آئین میں واضح درج نہیں، جو آئین میں واضح نہیں آسکی سپریم کورٹ تشریح کرسکتی ہے وضاحت نہیں، سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کےسامنے نااہلی کی مدت کا معاملہ نہیں تھا، سپریم کورٹ کے فیصلے اور  پارلیمنٹ کی قانون سازی، دونوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، پارلیمنٹ کی قانون سازی چلےگی یاسپریم کورٹ کا فیصلہ، اونٹ کسی کروٹ تو بیٹھنا ہے،  ایک طرف سپریم کورٹ کافیصلہ ہے دوسری جانب قانون، آراوکس پر انحصار کرے گا؟ انتخابات آگئے ہیں مگر کسی کو پتانہیں وہ الیکشن لڑےگا یا نہیں، تاحیات نا اہلی پر سپریم کورٹ کا فیصلہ اور الیکشن ایکٹ ایک ساتھ نہیں چل سکتے، الیکشن ایکٹ میں ترمیم اور سپریم کورٹ کےفیصلے میں سےکسی ایک کوبرقراررکھناہوگا۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ سنگین غداری جیسے جرم پر نااہلی 5سال ہے تو نماز نہ پڑھنے یاجھوٹ بولنے والےکی تاحیات نااہلی کیوں؟ 

بعد ازاں عدالت نے اٹارنی جنرل اور  تمام صوبائی ایڈووکیٹ جنرلزکو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 24 جنوری تک ملتوی کردی۔

مزید خبریں :