22 جنوری ، 2024
موسمیاتی تبدیلیوں سے ہماری زمین پر متعدد نقصان دہ اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور سائنسدانوں نے ایک اور حیرت انگیز اثر کا انکشاف کیا ہے۔
سائنسدانوں کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں آرکٹک خطے کی برفانی سطح میں چھپے ہزاروں سال پرانے وائرس پھر زندہ ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے انتباہ کیا ہے کہ زمین کے گرم ہوتے موسم کے نتیجے میں آرکٹک کی منجمد سطح کے نیچے موجود وائرس پھیل کر کسی نئی عالمی وبا کا باعث بن سکتے ہیں۔
سائنسدانوں نے انہیں زومبی وائرسز قرار دیا ہے۔
ایسا مردہ جاندار جو زندہ ہوگیا ہو، اسے زومبی کہا جاتا ہے اور اس حوالے سے ہارر فلمیں تو آپ نے دیکھی ہوں گی۔
فرانس کے Aix-Marseille یونیورسٹی اسکول آف میڈیسن کے سائنسدان Jean-Michel Claverie نے بتایا کہ ابھی عالمی وبا کے حوالے سے ایسے امراض پر توجہ مرکوز کی جا رہی ہے جو جنوبی خطوں میں ابھر کر شمال میں پھیل جائیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس کے برعکس اس خطرے پر بہت کم توجہ مرکوز کی جا رہی ہے جو شمالی کونوں سے ابھر کر جنوب تک سفر کر سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'میرا ماننا ہے کہ آرکٹک کی سطح کے نیچے چھپے وائرسز انسانوں پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور وہ ایک نئی عالمی وبا کا باعث بن سکتے ہیں'۔
نیدرلینڈز کے Erasmus میڈیکل سینٹر کی وائرلوجسٹ Marion Koopmans کا بھی یہی ماننا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نہیں جانتے کہ آرکٹک کی سطح کے نیچے کیسے وائرسز موجود ہیں مگر ہمارے خیال میں یہ حقیقی خطرہ ہے کہ ان میں سے کوئی ایک عالمی وبا کا باعث بن جائے۔
Jean-Michel Claverie کی سربراہی میں ایک تحقیقی ٹیم نے 2014 میں سائبیریا کی برفانی سطح کے نیچے سے خوابیدہ وائرسز کو جگانے میں کامیابی حاصل کی تھی۔
اس حوالے سے تحقیق مسلسل جاری ہے اور کچھ نتائج 2023 میں جاری کیے گئے تھے جس میں سائبیریا کے 7 مقامات کی برفانی سطح کے نیچے مختلف وائرسز کی موجودگی کا انکشاف کیا گیا اور یہ ثابت کیا گیا کہ یہ وائرسز اب بھی خلیات کو متاثر کر سکتے ہیں۔
ان میں سے ایک وائرس 48 ہزار 500 برس پرانا تھا۔
فرانسیسی سائنسدان نے بتایا کہ جن وائرسز کو ہم نے اکٹھا کیا وہ فی االحال انسانوں کے لیے خطرہ نہیں، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ برف کے نیچے منجمد دیگر وائرسز انسانوں کو بیمار نہیں کر سکتے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے وہاں ایسے وائرسز کے جینیاتی آثار شناخت کیے ہیں جو انسانوں میں بیماری پھیلا سکتے ہیں۔
سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ شمالی نصف کرے کا 20 فیصد حصہ ہزاروں یا لاکھوں برسوں سے برف سے ڈھکا ہوا ہے۔
Jean-Michel Claverie کے مطابق 'اہم نکتہ یہ ہے کہ ایسے برفانی مقامات کی تہہ سرد، تاریک اور آکسیجن سے محروم ہے، جو حیاتیاتی مادے کو محفوظ کرنے کے لیے بہترین ہے، مثال کے طور پر اگر آپ وہاں دہی کو رکھ دیں تو وہ 50 ہزار سال بعد بھی کھانے کے قابل ہوگا'۔
مگر موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں ان خطوں کا ماحول بھی تبدیل ہو رہا ہے۔
کینیڈا، الاسکا اور سائبیریا جیسے مقامات پر برف کی بالائی سطح تیزی سے پگھل رہی ہے۔
موسمیاتی ماہرین کے مطابق ان خطوں کا درجہ حرارت عالمی درجہ حرارت میں ہونے والے اوسط اضافے سے کہیں زیادہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
Jean-Michel Claverie کا کہنا تھا کہ برف کا پگھلنا براہ راست فوری خطرے کا باعث نہیں، یہ خطرہ اس وقت بڑھے گا جب آرکٹک کی سمندری برف پگھل جائے گی، اس سے سائبیریا میں جہاز رانی، ٹریفک اور صنعتی سرگرمیاں بڑھ جائیں گی اور کان کنی کے لیے بڑے سوراخ کیے جائیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان سرگرمیوں سے بڑے پیمانے پر جراثیم تہہ سے نکلیں گے اور وہاں موجود افراد پر اثرانداز ہوں گے۔
سائنسدانوں کے خیال میں ان خطوں کی تہہ میں لاکھوں یا کروڑوں سال پرانے وائرسز بھی ہو سکتے ہیں اور ہمارا مدافعتی نظام ان میں سے کچھ جراثیموں پر قابو پانے کی طاقت نہیں رکھتا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ایک خیال یہ ہے کہ ایک نامعلوم وائرس واپس ابھر کر پھیل جائے، تاہم فی الحال اس کا خطرہ بہت کم ہے۔
مگر اس خطرے کو مدنظر رکھتے ہوئے سائنسدانوں کی جانب سے آرکٹک کے خطے کی مانیٹرنگ کی جا رہی ہے اور وہاں قرنطینہ مراکز قائم کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔