05 فروری ، 2024
ملک میں 8 فروری کو ہونے والے انتخابات سے قبل تین اہم سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ نون (پی ایم ایل این)، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے منشور کا جائزہ فراہم کرنے کے لیے ایک غیر سرکاری فلاحی تنظیم کی جانب سے رپورٹ تیار کی گئی ہے۔
پبلک انٹرسٹ لاء ایسوسی ایشن آف پاکستان (پی آئی ایل اے پی) ایک آزاد، غیر سیاسی اور غیر منافع بخش تنظیم ہے جس نے اپنے انتخابی منشور 2024 میں شامل ہر پارٹی کے ایجنڈوں کو دستاویز میں نمایاں کیا ہے۔
ووٹنگ جمہوری عمل کا ایک اہم حصہ ہے اور آئین پاکستان ہر شہری کو حق رائے دہی کی ضمانت دیتا ہے۔
انتخابات تمام شہریوں کو عوامی معاملات میں زیادہ شفافیت کو برقرار رکھنے، گورننس کو بہتر بنانے، صحیح معاشی فیصلے کرنے اور دیگر سماجی و سیاسی پالیسیوں کو تشکیل دینے کے لیے سیاسی عمل میں حصہ لینے کا باقاعدہ موقع فراہم کرتے ہیں۔
ایک خودمختار جمہوری ریاست عوام کی مرضی کو تسلیم کرتی ہے، ایک شہری کا ووٹ نہ صرف ایک حق ہے بلکہ ایک ذمہ داری بھی ہے۔ آپ کا ووٹ درحقیقت نمائندوں کو منتخب کرنے کا ایک موقع اور احتساب کے دروازے کھلے رہنے کو یقینی بنانے کا واحد ذریعہ بھی ہے اس لیے عوام اپنے ووٹ کا حق ایمانداری اور دانشمندی سے استعمال کریں۔
مسلم لیگ نون کی توجہ اقتصادی ترقی، ساختی اصلاحات، توانائی کی ترقی اور انفرا اسٹرکچر کی توسیع پر مرکوز ہے۔
مسلم لیگ نون نے کم از کم ایک کروڑ ملازمتیں پیدا کرکے مہنگائی اور بے روزگاری کی شرح کو کم کرنے کے علاوہ 5 سالوں میں غربت کی سطح کو 38 فیصد سے کم کرکے 25 فیصد تک لانے کا عزم کیا ہے۔
نون لیگ نے 6 فیصد جی ڈی پی گروتھ، 60 ارب ڈالر کی سالانہ برآمدات اور غیر ملکی اداروں سے سالانہ ترسیلات زر میں 40 ارب ڈالر کا ہدف مقرر کیا ہے۔
مسلم لیگ نون نے اپنے منشور میں بجلی کے بلوں میں 20 سے 30 فیصد کمی کرنا اور مزید 15 ہزار میگاواٹ قومی گرڈ میں شامل کرنے کے علاوہ ملک میں 10 ہزار میگاواٹ شمسی توانائی کے منصوبے نافذ کرنے کا عہد بھی کیا ہے۔
نون لیگ نے چین کے ساتھ قریبی تعلقات کو مزید فروغ دینے اور صنعتوں کے لیے ٹیکسوں کو کم کرنے کے منصوبوں کو بھی منشور کا حصہ بنایا ہے جبکہ خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری کے ساتھ ساتھ 2029 کے آخر تک جی ڈی پی کے تناسب میں 10.4 فیصد سے 13.5فیصد تک اضافے کو بھی اپنا ہدف مقرر کیا ہے۔
مسلم لیگ نون کے اصلاحاتی ایجنڈے میں قومی احتساب بیورو (نیب) کو ختم کرنے اور آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 (مجلس شوریٰ کی رکنیت کے لیے نااہلی) کو اصل شکل میں بحال کرنے کا وعدہ بھی شامل ہے۔
پیپلز پارٹی کا انتخابی منشور غریبوں کے لیے سماجی تحفظ پر زیادہ توجہ مرکوز کرتا ہے جس میں غربت اور بھوک کے خاتمے کے لیے پروگرام، اقلیتوں اور پسماندہ گروہوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اقدامات اور وفاق کو مضبوط بنانے پر زور دیا گیا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے نئی عوامی معیشت کے پانچ ستون تجویز کیے ہیں جن میں معاشی استحکام، سرکاری اور نجی سرمایہ کاری میں اضافہ، کمزوروں کا تحفظ، مالیاتی عدم توازن سے نمٹنا اور قرضوں اور بیرونی وسائل کا انتظام کرنا شامل ہے۔
پی پی کے منشور کے کچھ اہم نکات یہ ہیں کہ اجرت کمانے والوں کی حقیقی آمدنی 5 سالوں میں دوگنی کر دی جائے، غریب ترین صارفین کے لیے 300 مفت یونٹ بجلی کی فراہمی، شمسی اور ہوا کی توانائی کا استعمال، خواتین سربراہان کے لیے 30 لاکھ گھروں کی تعمیر، مفت پرائمری ہیلتھ کیئر کی فراہمی، زراعت سے جڑے مزدور افراد کے لیے کسان/ہاری کارڈ، مزدوروں کے لیے مزدور کارڈ، نوجوانوں کے لیے یوتھ کارڈ، پارلیمنٹ میں خوراک کے حق کا قانون متعارف کرانا اور حاملہ/نئی ماؤں کے لیے 1000 دن کے مفت غذائیت کے پروگرام کا قیام شامل ہے۔
پیپلز پارٹی نے 18ویں ترمیم کے بعد فالتو پائی جانے والی 17 وفاقی وزارتوں کو ختم کرکے سالانہ 300 ارب روپے کی بچت کے ساتھ سبسڈیز کو ختم کرکے مندرجہ بالا پروگراموں کو فنڈز دینے کا عہد کیا ہے۔
اس کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی نے 18ویں ترمیم کے تحفظ اور اس کے نفاذ کو وسعت دینے، جبری گمشدگیوں کو جرم قرار دینے، انٹیلی جنس ایجنسیوں کو جوابدہ بنانے اور آرمی ایکٹ کی شق 2 (1) پر نظر ثانی کرنے سمیت امتیازی اور فرسودہ نوآبادیاتی قوانین کو منسوخ کرنے کا عہد کیا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے منشور میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے کامیابی سے نمٹنے پر بھی خصوصی زور دیا ہے۔
پی ٹی آئی کا منشور ایک ایسی ریاست کے قیام کی طرف اشارہ کرتا ہے جو مدینہ کی روح کو مجسم کرے اور اسلامی اقدار اور اسلامی فلاحی نظام سے مزین ہو، تحریک انصاف نے قانون کی حکمرانی، انصاف کی فراہمی اور احتساب پر توجہ دی ہے۔
پی ٹی آئی نے وزیراعظم کے انتخاب کے عمل پر نظر ثانی کے لیے آئینی ترامیم (اراکین قومی اسمبلی کے بجائے ووٹرز کے ذریعے براہ راست انتخاب) کی تجویز پیش کی ہے، قومی اسمبلی کی مدت کو کم کر کے 4 سال کرنے، سینیٹ کی مدت کو کم کر کے 5 سال کرنے اور انتخابات کے عمل پر نظر ثانی کی تجویز بھی اپنے منشور میں رکھی ہے، تحریک انصاف نے سینیٹرز کا انتخاب 50 فیصد براہ راست اور 50 فیصد بالواسطہ کرنے کو بھی اپنے منشور کا حصہ بنایا ہے۔
مزید برآں، پی ٹی آئی نے ملک کے حالات کو بہتر کرنے کے لیے "سچائی اور مصالحتی کمیشن" قائم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
پی ٹی آئی کی جانب سے کیے گئے دیگر وعدوں میں اصلاحات شامل ہیں جن کا مقصد ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنا، پاکستان بھر میں مفت صحت کی دیکھ بھال کی فراہمی کے لیے صحت کارڈ کو وسعت دینا، احساس پروگرام کو بحال کرنا اور ملک بھر میں یکساں نظام تعلیم متعارف کرانا شامل ہے۔
تحریک انصاف نے اپنے منشور میں احتساب پر خصوصی زور دیا ہے جس میں وائٹ کالر کرائمز سے مؤثر طریقے سے نمٹنا، صوبائی اینٹی کرپشن فورسز کی تشکیل اور ایک ایلیٹ اینٹی کرپشن اکیڈمی کا قیام شامل ہے۔