29 فروری ، 2024
سپریم کورٹ کے مستعفی جج مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی انکوائری کے دوران مزید شہادتیں ریکارڈ کرلی گئیں۔
سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس کونسل کے چیئرمین اور چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں ہوا۔
اجلاس میں دو مزید گواہان نے حلف پر بیانات ریکارڈ کرائے، بلڈر زاہد رفیق نے بیان قلم بند کراتے ہوئے کونسل کو بتایا کہ وہ اور ان کا خاندان 60 سال سےکنسٹرکشن کا کارروبار کر رہا ہے، ان کی 8 کمپنیاں ہیں، لینڈ پرووائیڈر راجہ صفدر کے ذریعے جج مظاہر نقوی سے ان کے گھر پر دو ملاقاتیں ہوئیں۔
زاہد رفیق نےکونسل کے سوالات پر جواب دیتے ہوئےکہا کہ پانچ کروڑ کی ادائیگی راجہ صفدر کو کی، وہ جج نقوی کے بیٹوں کو جانتے ہیں اور ان کی کمپنی لیگل ایڈوائزر کے طور پر ماہانہ ڈیڑھ لاکھ روپے ادا کرتی ہے۔
زاہد رفیق نے کہا کہ مظاہر نقوی کی بیٹی کو ہنگامی طور پر لندن میں رقم کی ضرورت تھی تو راجہ صفدر نے مجھے ادائیگی کے لیےکہا، میں نے دبئی میں اپنے ایک دوست کے ذریعے پانچ ہزار پاؤنڈ کی رقم جج صاحب کی بیٹی کو بھجوائی۔
اس سوال کے جواب پر کہ وہ رقم واپس ملی؟ زاہد رفیق نے بتایا کہ رقم ہمیں واپس نہیں کی گئی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ کیا راجہ صفدر نےکبھی کسی اور جج سے آپ کی ملاقات کرائی؟
زاہد رفیق نے کہا کہ کسی اور جج سے ملاقات نہیں کرائی، مظاہر نقوی کے دونوں بیٹوں کو ایک ایک کنال کے دو پلاٹ الاٹ کیے، فی پلاٹ قیمت 54 لاکھ تھی، دس فیصد ادائیگی پر مظاہر نقوی کے بیٹوں کو ٹرانسفر کر دیے جب کہ لاہور میں ایک سو مربع گز کے مزید دو کمرشل پلاٹ جن کی فی پلاٹ قیمت 80 لاکھ روپے تھی دیے، جو ان کے بیٹوں نے بیچ دیے، کتنے میں بیچے یہ علم نہیں۔
عسکری بینک لاہور کے منی جر نے پانچ پانچ کروڑ روپےمالیت کے دو بینک ڈرافٹ کا ریکارڈ کونسل میں پیش کیا۔
جائیداد مستعفی جج کو بیچنے والے چوہدری شہباز نےکونسل کے سوالات کے جواب میں بتایا کہ بطور جج مظاہر نقوی کی عدالت میں ان کی اہلیہ مرحومہ بسمہ وارثی کا چیک ڈس آنر ہونے کا کیس چلتا رہا۔
چوہدری شہباز نے بیان دیا کہ مستعفی جج نے13کروڑ کی ادائیگی میں سے 3 کروڑ روپے کیش ادا کیے۔
کونسل کی مزید کارروائی کل تک کے لیے ملتوی کر دی۔