06 مارچ ، 2024
سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل سے متعلق صدارتی ریفرنس پر اپنی مختصر رائے جاری کر دی۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ نے بھٹو صدارتی ریفرنس سے متعلق دائر درخواست کی سماعت کے دوران پیپلز پارٹی کے وکلا، احمد رضا قصوری اور عدالتی معاونین کو سننے کے بعد گزشتہ روز رائے محفوظ کی تھی۔
چیف جسٹس پاکستان نے بھٹو صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کی مختصر رائے سناتے ہوئے کہا کہ عدالت کی رائے اس معاملے پر متفق ہے، ہم ججزپابند ہیں کہ قانون کے مطابق فیصلہ کریں۔
سپریم کورٹ کے ججز کی متفقہ رائے میں کہا گیا ہے خود احتسابی کیلئے انتہائی عاجزی سے ماضی کے غلط اقدامات اور غلطیوں کا سامنا کرنا چاہیے، ماضی کی غلطیوں کو تسلیم کیے بغیر درست سمت میں نہیں جاسکتے۔
سپریم کورٹ کی رائے میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 186کے تحت کسی بھی عوامی مفاد سے متعلق قانونی سوال پرصدارتی ریفرنس پررائے دینا ہوتی ہے، ہمارے سامنے سوال تھا کہ سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کو شفاف ٹرائل ملا، سوال تھا کہ بھٹو ٹرائل کے دوران ڈیوپراسس اور فئیر ٹرائل کے تقاضے پورے کیے گئے۔
عدالتی رائے میں کہا گیا ہے کہ صدارتی ریفرنس سے فوجی آمر ضیاالحق کی حکومت میں بھٹوکی سزائے موت کے ٹرائل کو جانچنے کا موقع ملا، صدارتی ریفرنس بھٹوکی سیاسی جماعت کے دورحکومت میں داخل کیا گیا، اس کے بعد نگراں حکومتوں سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کی حکومتیں آئیں لیکن کسی جماعت نے ریفرنس واپس نہیں لیا، یہ اس بات کا اظہار ہے کہ عوام کی خواہش تھی کہ عدالت اس پر اپنی رائے کا اظہار کرے۔
متفقہ رائے میں کہا گیا ہے کہ ملک کے بڑے قانونی ماہرین کی معاونت سے عدالت اپنی مختصر رائے دیتی ہے، لاہور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں کارروائی آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق آرٹیکل4، 9 10 اے کے مطابق نہیں تھی، آئین وقانون میں ایسا کوئی مکینزم موجود نہیں کہ اس اختیار سماعت میں بھٹو فیصلے کوکالعدم قرار دیا جائے۔
سپریم کورٹ کی رائے میں کہا گیا ہے کہ بھٹوکیس کا فیصلہ سپریم کورٹ سے نظرثانی مسترد ہونے کے بعد فائنلٹی اختیار کرچکا ہے، یہ سوال کہ کیا ٹرائل کے دوران جومواد و شواہد پیش کیے گئے ان کی بنیاد پربھٹوکوسزائے موت دی جا سکتی تھی، عدالت کی رائے ہے کہ یہ سپریم کورٹ کا مشاورتی اختیار سماعت ہے، اس اختیار سماعت کے تحت عدالت شہادتوں کا دوبارہ جائزہ لےکرفیصلے کوکالعدم قرارنہیں دے سکتی۔
عدالتی رائے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عدالت فیئرٹرائل نہ ہونے کے حوالے سے بڑی آئینی و قانونی خامیوں کی تفصیلی وجوہات میں نشاندہی کرے گی، اسلامی تناظرمیں بھٹو ٹرائل کا جائزہ لینے کے سوال پرعدالت کو معاونت فراہم نہیں کی گئی، معاونت فراہم نہ ہونے پرنامناسب ہوگا کہ عدالت اس قانونی سوال پر اپنی رائے دے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے صدارتی ریفرنس پر رائے سنائے جانے کے وقت چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری بھی عدالت میں موجود تھے اور رائے سنتے وقت بلاول بھٹو زرداری آبدیدہ بھی ہو گئے۔
بعد ازاں سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا آج سپریم کورٹ نے تاریخی فیصلہ سنایا ہے، عدالت نے تسلیم کیا کہ ذوالفقار بھٹو کو فیئر ٹرائل کا موقع نہیں ملا، عدالت نے کہا کہ ماضی کی غلطیوں کو درست کرنے کیلئے فیصلہ سنارہے ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کے انتظار میں ہیں، عدالت کے تفصیلی فیصلے کے بعد میڈیا سے گفتگو کریں گے۔
یاد رہے کہ 2011 میں اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل سے متعلق ریفرنس دائر کیا تھا اور اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے دسمبر 2012 تک کیس کی 6 سماعتیں بھی کی تھیں لیکن ریفرنس سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا تھا۔