ذوالفقار بھٹو کیس سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت مکمل، عدالت نے رائے محفوظ کرلی

حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں، ہم اپنا کام کریں دوسروں کو اپنا کام کرنے دیں، ہمارے سامنے صدارتی ریفرنس ہے،ہم چاہیں نہ چاہیں ہمیں اسے سننا ہے: چیف جسٹس— فوٹو:فائل
حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں، ہم اپنا کام کریں دوسروں کو اپنا کام کرنے دیں، ہمارے سامنے صدارتی ریفرنس ہے،ہم چاہیں نہ چاہیں ہمیں اسے سننا ہے: چیف جسٹس— فوٹو:فائل

سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے قتل سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت مکمل کرلی اور عدالت نے رائے محفوظ کرلی۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ صدارتی ریفرنس میں مختصر رائے دے سکتی ہے؟ اس پر آصفہ بھٹو، بختاور بھٹو اور صنم بھٹو کے وکیل رضا ربانی نے کہا عدالت ایسا کرسکتی ہے، سپریم کورٹ مکمل انصاف کی فراہمی کیلئے آرٹیکل 187 کا استعمال کرسکتی ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اگر ہم نے آرٹیکل 187کا استعمال کیا وہ رائے کے بجائے فیصلہ ہوجائے گا۔

رضا ربانی نے دلائل میں کہا کہ جب بھٹو کیخلاف کیس چلایا گیا اس وقت ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ آئین کے تحت کام نہیں کررہے تھے، ملک میں مارشل لاء نافذ تھا، بھٹو کیس میں فیئر ٹرائل کے پراسیس پر عمل نہیں کیا گیا، احمد رضا قصوری پر حملوں کے 6 مقدمات درج ہوئے اور کسی ایف آئی آر میں بھٹو کو نامزد نہیں کیا گیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ جسٹس اسلم ریاض حسین بیک وقت سپریم کورٹ کے جج اور پنجاب کے قائم مقام گورنر بھی تھے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ مارشل لاء آرڈر کے تحت تو کچھ بھی ہوسکتا تھا، مارشل لاء دور میں تو گورنر ٹرائل بھی چلا سکتے تھے۔

رضا ربانی نے کہا بیگم نصرت بھٹو نے پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی گرفتاریاں سپریم کورٹ میں چیلنج کی، جسٹس یعقوب اس وقت چیف جسٹس تھے،جسٹس یعقوب نے جیسے ہی درخواست سماعت کیلئے منظور کی، انھیں بطور چیف جسٹس پاکستان ہٹا دیا گیا، جسٹس انوار الحق کو چیف جسٹس پاکستان بنا دیا گیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے محمود مسعود کے بارے میں پوچھا تھا، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا ہم ریکارڈ ڈھونڈ رہے ہیں، نادرا کے پاس بھی پرانا ریکارڈ نہیں ہے، تین وزارتوں کو ہم نے ریکارڈ کے حصول کیلئے لکھا ہے۔

وکیل احمد رضا قصوری نے دلائل میں کہا کہ بھٹو کیس میں پرائیویٹ کمپلینٹ 1977 میں دائر کی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ قتل 1974 کا تھا آپ نے اتنا وقت کیوں لیا؟ احمد رضا قصوری نے جواب دیا کہ پہلے کیس بند ہوگیا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیس بھی کافی پہلے بند ہوا آپ تبھی کیوں نہیں گئے کہ ناانصافی ہوگئی، آپ نے تین سال کیوں لیے تھے اس کا جواب کیا ہوگا؟ 

احمد رضا قصوری نے جواب دیاکہ اس وقت ذوالفقار بھٹو وزیراعظم تھے صورتحال ہی ایسی تھی۔ اس پر چیف جسٹس نے کہاکہ آپ کا اثر رسوخ، تعلقات اور وسائل والا خاندان تھا، آپ جیسا بااثر خاندان کیسے کمپلینٹ فائل کرنے میں اثر لیتا رہا؟ 

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا آپ نے انکوائری بند ہونے کا آرڈر بھی چیلنج نہیں کیا تھا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے مختصر دلائل دیتے ہوئے کہا بھٹوکیس میں تفتیش مجسٹریٹ آرڈر سے بند ہوگئی تھی، کوئی بھی نیا جوڈیشل آرڈر لیے بغیر دوبارہ تفتیش کی گئی، پورا ٹرائل ایسی تفتیش پر چلا جو قانونی نہیں تھی، بظاہر لگتا ہے اس وقت سرکار کی مداخلت موجود تھی۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ ایسی مداخلت کرنے کیلئے حکومت کیا اقدامات کر رہی ہے؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایاکہ آف کورس ہم تو عدلیہ کی آزادی کے داعی رہے ہیں۔ اس پر  جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا آپ اقدامات کیا لے رہے ہیں؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ اب نئی حکومت آ رہی ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں ہم اپنا کام کریں دوسروں کو اپنا کام کرنے دیں۔

عدالت نے سماعت مکمل ہونے پر رائے محفوظ کرلی۔

مزید خبریں :