12 مارچ ، 2024
ماہ رمضان کے دوران دنیا بھر میں مسلمان روزے رکھتے ہیں جس کے دوران سحر سے افطار تک کھانے اور پانی سے دوری اختیار کی جاتی ہے۔
مگر غذا اور پانی سے دوری سے جسم پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟
حالیہ برسوں میں انٹرمٹنٹ فاسٹنگ طریقہ کار پر کافی تحقیقی کام ہوا ہے۔
خیال رہے کہ انٹرمٹنٹ فاسٹنگ طریقہ کار میں روزانہ ایک خاص دورانیے تک کھانے سے دوری اختیار کی جاتی ہے، یعنی کسی حد تک یہ طریقہ کار رمضان کے روزوں جیسا ہی ہے۔
تو روزے رکھنے سے جسم پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ درج ذیل ہیں۔
تحقیقی رپورٹس سے ثابت ہوا ہے کہ روزوں سے جسمانی وزن میں کمی آتی ہے۔
درحقیقت روزے رکھنے سے پیٹ اور کمر کے گرد چربی گھلانے میں زیادہ مدد ملتی ہے۔
توند کی چربی سے امراض قلب کا خطرہ بڑھتا ہے تو اس میں کمی سے صحت بہتر ہوتی ہے۔
تحقیقی رپورٹس سے ثابت ہوتا ہے کہ غذا سے دوری سے بلڈ پریشر پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
البتہ جب روزے رکھنے کا سلسلہ ختم ہوتا ہے تو بلڈ پریشر پھر وہی پہنچ جاتا ہے، جہاں آغاز میں تھا۔
تحقیقی رپورٹس سے ثابت ہوا ہے کہ رمضان کے دوران روزہ رکھنے والے افراد کے جسمانی ورم میں 3 ہفتوں کے دوران کمی آتی ہے۔
اس کمی کی وجہ یہ ہے کہ ورم کا عمل متحرک کرنے والے پروٹینز کی سطح گھٹ جاتی ہے۔
رپورٹس کے مطابق روزے رکھنے سے دمہ کی علامات اور پھیپھڑوں کے افعال بھی بہتر ہوتے ہیں۔
اس حوالے سے ابھی ٹھوس ثبوت تو موجود نہیں مگر چھوٹے پیمانے پر ہونے والی تحقیقی رپورٹس میں ثابت ہوا ہے کہ روزے رکھنے سے نقصان دہ کولیسٹرول ایل ڈی ایل کی سطح میں کمی آتی ہے۔
ایل ڈی ایل کولیسٹرول شریانوں میں جمع ہوتا ہے جس سے ہارٹ اٹیک اور فالج کا خطرہ بڑھتا ہے۔
تحقیقی رپورٹس سے معلوم ہوا ہے کہ غذا سے دوری سے دماغی ساخت اور اعصابی خلیات کی نشوونما میں بہتری آتی ہے۔
اس کے نتیجے میں دماغی افعال بہتر ہوتے ہیں جس سے ممکنہ طور پر الزائمر اور پارکنسن امراض کا خطرہ کم ہوتا ہے۔
اس حوالے سے انسانوں پر تو کام نہیں ہوا مگر جانوروں پر ہونے والے تحقیقی کام کے مطابق کھانے سے دوری سے رسولی کی نشوونما رک جاتی ہے اور کیموتھراپی کی افادیت بڑھ جاتی ہے۔
انسولین کی مزاحمت کے دوران جسم میں انسولین کی سطح بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے جبکہ اس کی افادیت گھٹ جاتی ہے اور بلڈ شوگر کی سطح کنٹرول سے باہر ہونے لگتی ہے۔
تحقیقی رپورٹس کے مطابق انسولین کی مزاحمت سے متاثر افراد جب روزے رکھتے ہیں تو اس ہارمون کے افعال بہتر ہوتے ہیں جس سے ذیابیطس ٹائپ 2 کا خطرہ کم ہوتا ہے۔
اس حوالے سے ابھی تحقیقی کام ہو رہا ہے اور کچھ رپورٹس میں دریافت کیا گیا کہ روزوں سے گہری نیند کا دورانیہ گھٹ جاتا ہے۔
مگر دیگر تحقیقی رپورٹس میں بتایا گیا کہ روزوں سے جسم میں ایسے کیمیکلز کی مقدار بڑھتی ہے جو کم نیند کے باوجود دن بھر میں آپ کو زیادہ مستعد رکھتے ہیں۔
روزے رکھنے سے مدافعتی نظام بھی مضبوط ہوتا ہے۔
تحقیقی رپورٹس سے ثابت ہوا ہے کہ غذا سے دوری سے خون کے سفید خلیات کے افعال بہتر ہوتے ہیں جبکہ ان کی نشوونما بھی بڑھ جاتی ہے۔
اس حوالے سے زیادہ تحقیقی کام تو نہیں ہوا مگر خیال کیا جاتا ہے کہ روزے رکھنے سے کیل مہاسوں سے نجات ملتی ہے جبکہ جِلد کی شفافیت بڑھتی ہے۔
اس حوالے سے ماہرین کی جانب سے ابھی تحقیقی کام کیا جا رہا ہے۔
مگر اب تک ہونے والے تحقیقی کام سے ثابت ہوا ہے کہ غذاؤں سے دوری صحت کو بہتر بناتی ہے جس سے اوسط عمر میں اضافہ ہوتا ہے۔
نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔