ہیپاٹائٹس ٹی بی کی جگہ سب سے بڑا قاتل وبائی مرض بننے کے قریب

عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ میں اس بارے میں بتایا گیا / اے پی فوٹو
عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ میں اس بارے میں بتایا گیا / اے پی فوٹو

ابھی تپ دق (ٹی بی) کو دنیا میں سب سے زیادہ ہلاکتوں کا باعث بننے والا وبائی مرض مانا جاتا ہے۔

مگر پہلی بار ہیپاٹائٹس ٹی بی کو پیچھے چھوڑنے کے قریب پہنچ گیا ہے۔

ہیپاٹائٹس بی اور سی وائرس سے اب ٹی بی جتنی ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی ایک رپورٹ کے مطابق 2022 میں ہیپاٹائٹس بی اور سی سے 13 لاکھ اموات ہوئیں۔

رپورٹ میں خبردار کیا گیا کہ اگر اس حوالے سے اقدامات نہ کیے گئے تو 2040 تک ہیپاٹائٹس سے ہونے والی ہلاکتیں ٹی بی، ایچ آئی وی اور ملیریا سے ہونے والی مجموعی ہلاکتوں سے زیادہ ہو جائیں گی۔

ماہرین نے بتایا کہ ہیپاٹائٹس کا وائرس خون کے ذریعے پھیلتا ہے اور عالمی طبی ماہرین کی جانب سے اسے اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ وائرل ہیپاٹائٹس پر عالمی سطح پر زیادہ وجہ مرکوز نہیں کی جا رہی، درحقیقت ایچ آئی وی، ٹی بی اور ملیریا کے خالف عالمی فنڈ کے قیام کے دوران ہیپاٹائٹس کے بوجھ کو نظر انداز کر دیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ 10 برسوں کے دوران کم آمدنی والے ممالک میں ہیپاٹائٹس کے کیسز میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ ان کے پاس اس وائرس کی روک تھام کے لیے درکار وسائل موجود نہیں۔

رپورٹ کے مطابق ہیپاٹائٹس کے دو تہائی کیسز محض 10 ممالک میں سامنے آئے ہیں۔

ان ممالک میں پاکستان، بنگلا دیش، چین، ایتھوپیا، بھارت، انڈونیشیا، نائیجریا، فلپائن، روس اور ویتنام شامل ہیں۔

مگر اب ترقی یافتہ ممالک میں بھی یہ وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے۔

دنیا بھر میں ہیپاٹائٹس سے ہونے والی 83 فیصد اموات ہیپاٹائٹس بی اور جبکہ 17 فیصد ہیپاٹائٹس سی کے باعث ہوتی ہیں۔

ہیپاٹائٹس کی علامات میں تھکاوٹ، یرقان اور متلی قابل ذکر ہیں، مگربیشتر کیسز میں علامات ظاہر نہیں ہوتیں اور مرض کی تشخیص آخری مرحلے میں ہوتی ہیں۔

اس وائرس کے پھیلاؤ کی اہم وجہ متاثرہ خون کی منتقلی، آلودہ سرنجوں اور آلات کا استعمال ہے جبکہ ہیپاٹائٹس بی متاثرہ ماں سے بچوں میں منتقل ہو سکتا ہے۔

ہیپاٹائٹس بی سے تحفظ کے لیے ایک ویکسین دستیاب ہے مگر بیشتر ممالک کو اس تک رسائی حاصل نہیں۔

ہیپٹاٹائٹس بی اور سی کا علاج بھی موجود ہے مگر بیشتر افراد اس تک رسائی حاصل نہیں کرپاتے۔

مزید خبریں :