22 اپریل ، 2024
ٹک ٹاک نے مجوزہ امریکی پابندی پر عدالتوں سے رجوع کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
بلومبرگ کی ایک رپورٹ کے مطابق ٹک ٹاک کی جانب سے ملازمین کو بتایا گیا کہ ایپ پر پابندی یا کسی امریکی کمپنی کو فروخت کرنے کے بل کو قانون کی حیثیت ملتی ہے تو اس کی جانب سے عدالتوں سے رجوع کیا جائے گا۔
خیال رہے کہ امریکا ٹک ٹاک کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے مگر وہاں اس کی بقا کو خطرہ لاحق ہے۔
گزشتہ دنوں امریکی نمائندگان میں ایک بل کی منظوری دی گئی تھی، جس میں واضح کیا گیا تھا کہ اگر ٹک ٹاک کے چین میں مقیم مالک ایک سال کے اندر اپنا حصہ کسی امریکی کمپنی کو فروخت نہیں کرتے تو سوشل میڈیا ایپلی کیشن پر امریکا میں پابندی عائد کردی جائے گی۔
اس سے قبل مارچ میں قومی سلامتی کے خدشات کے پیشِ نظر امریکی ایوان نے ٹک ٹاک سے متعلق بل منظور کیا تھا جس میں کمپنی کو 6 ماہ کی مہلت دی گئی تھی کہ وہ امریکا کے ساتھ ایپ کا ڈیٹا شیئر کرے یا پھر پابندی کا سامنا کرے۔
امریکا میں ٹک ٹاک کے پبلک پالیسی شعبے کے سربراہ مائیکل بیکر مین نے ملازمین کے نام ایک میمو میں کہا کہ جب اس بل پر دستخط ہو جائیں گے تو ہم اس کے خلاف عدالتوں میں جائیں گے۔
ٹک ٹاک کی جانب سے برسوں سے امریکی حکومت کو یقین دہانی کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ یہ مقبول ایپ امریکی سلامتی کے لیے خطرہ نہیں۔
امریکی ایوان نمائندگان نے ٹک ٹاک پر پابندی کے خلاف بل کو یوکرین اور اسرائیل کے لیے امدادی پیکج کے ساتھ منسلک کر دیا ہے تاکہ اس پر تیزی سے کام ہو سکے۔
امریکی سینیٹ میں آئندہ چند روز میں ٹک ٹاک کے خلاف بل پر رائے شماری ہوگی جبکہ صدر جو بائیڈن پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ اس پر دستخط کر دیں گے۔
مائیکل بیکر مین نے میمو میں کہا کہ ٹک ٹاک کی فروخت یا پابندی کا قانون ٹک ٹاک کے 17 کروڑ امریکی صارفین کے حقوق کی واضح خلاف ورزی ہے اور اس سے 70 لاکھ چھوٹے کاروباری اداروں پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہم اس حوالے سے جنگ جاری رکھیں گے، یہ طویل جدوجہد کا اختتام نہیں بلکہ آغاز ہے۔
بلومبرگ کی رپورٹ کے مطابق ٹک ٹاک کی جانب سے پہلے تمام قانونی آپشنز آزمائے جائیں گے، جس کے بعد کمپنی کی فروخت کے بارے میں غور کیا جائے گا مگر اس حوالے سے چینی حکومت کی منظوری ضروری ہوگی، جو پہلے ہی اس طرح کی جبری فروخت کی مخالف ہے۔