Time 13 مئی ، 2024
پاکستان

9 مئی حملے: تحریک انصاف کے درجنوں رہنماؤں نے تشدد کو ہوا دی، 300 سے زائد مقامات پر احتجاج ہوا

عمران خان کی گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی رہنماؤں نے فوری طور پر سوشل میڈیا پر اُن کی حراست کے متعلق جھوٹ پھیلانے اور لوگوں کو تشدد کی ترغیب دی: رپورٹ/ فائل فوٹو
عمران خان کی گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی رہنماؤں نے فوری طور پر سوشل میڈیا پر اُن کی حراست کے متعلق جھوٹ پھیلانے اور لوگوں کو تشدد کی ترغیب دی: رپورٹ/ فائل فوٹو

اسلام آباد: نگراں حکومت میں تیار کردہ 9 مئی کی رپورٹ میں نہ صرف فوجی تنصیبات پر حملوں کے واقعات میں عمران خان کے کردار پر توجہ مرکوز کی گئی ہے بلکہ رپورٹ اس بات کی عکاسی بھی کرتی ہے کہ کس طرح پی ٹی آئی کے درجنوں رہنماؤں نے مبینہ طور پر تشدد کو ہوا دی اور اس میں حصہ لیا جس کا ملک نے اپنی تاریخ میں پہلے کبھی مشاہدہ نہیں کیا تھا۔

موجودہ کابینہ کے روبرو چند روز قبل پیش کردہ اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ مظاہرے 300؍ سے زائد مقامات پر شروع ہوئے اور ساتھ ہی مفصل انداز سے بتایا گیا ہے کہ اُس دن کس نے کیا کیا۔

رپورٹ کے مطابق، عمران خان کی گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی رہنماؤں نے فوری طور پر سوشل میڈیا پر اُن کی حراست کے متعلق جھوٹ پھیلانے اور لوگوں کو تشدد کی ترغیب دی، بڑے پیمانے پر یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ عمران خان پر تشدد کیا جا رہا ہے اور ان کے قتل کا امکان ہے، اس حوالے سے جو زبان استعمال کی گئی وہ انتہائی سنسنی خیز اور اشتعال انگیز تھی اور اس سے پرتشدد کارروائیوں کی حوصلہ افزائی کی جھلک نظر آتی تھی۔

رپورٹ کے مطابق،’اُس روز پی ٹی آئی رہنماؤں کی جانب سے کہے جانے والے جھوٹ اور تشدد کی ترغیب کی کچھ مثالیں یہ ہیں:

حماد اظہر نے دوپہر 2؍ بجکر 37؍ منٹ پر ٹویٹ میں الزام عائد کیا کہ عمران خان پر تشدد کیا جا رہا ہے۔ زرتاج نے تین بجکر دس منٹ پر خدشہ ظاہر کیا کہ عمران خان کو حراست میں قتل کر دیا جائے گا۔ مراد سعید نے بالترتیب دو بجکر 37؍ منٹ، دو بجکر 44؍ منٹ اور چار بجکر 20؍ منٹ پر ٹویٹ میں پارٹی کارکنوں کو مختلف مقامات پر جمع ہونے کیلئے کہا اور انہیں ہدایت کی کہ وہ عمران خان پر تشدد نہ ہونے دیں اور جو لوگ خود کو طاقتور سمجھتے ہیں ان کیلئے زمین کو جہنم بنا دیں۔ 

فرخ حبیب نے چار بجکر 51؍ منٹ پر ٹویٹ میں لوگوں سے کہا کہ وہ اپنی جان قربان کر دیں لیکن عمران خان پر تشدد نہ ہونے دیں۔ علی امین گنڈا پور نے شام پانچ بجکر 12؍ منٹ پر ٹویٹ میں کارکنوں سےکہ ۔۔ ابھی یا پھر کبھی نہیں ۔۔ اپنی جانوں سے خان کی حفاظت کریں۔ علی زیدی نے چار بجکر 23؍ منٹ پر ٹویٹ کی کہ پارٹی کارکن سندھ کو بند کر دیں۔ 

انعم شیخ، شاندانہ گلزار خان، کنول شوزب نے اپنی ٹویٹ میں لوگوں کو جی ایچ کیو راولپنڈی کے مقام پر احتجاج کیلئے کہا۔ سینیٹر اعجاز چوہدری نے دو بجکر 28؍ منٹ پر ٹویٹ میں پارٹی کارکنوں سے پورا ملک بند کرنے کی اپیل کی۔ فیصل جاوید نے دو بجکر 48؍ منٹ پر ٹویٹ میں کہا کہ عمران خان پر تشدد ہو رہا ہے۔ شہریار آفریدی نے تین بجکر 36؍ منٹ پر ٹویٹ میں کہا کہ جن غداروں نے خان کو گرفتار کیا انہوں نے قوم پر حملہ کیا ہے۔ عمر ملک نے تین بجکر 55؍ منٹ پر ویڈیو پیغام ٹویٹ کیا کہ عوام کار کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ کی جانب مارچ کریں۔‘

رپورٹ کے مطابق، عمران خان کی گرفتاری کے فوراً بعد پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کارکنوں نے مہم چلاتے ہوئے ایسے ٹویٹر ٹرینڈز شروع کیے جو تشدد کی حوصلہ افزائی کرتے اور لوگوں کو جی ایچ کیو پر حملے کی ترغیب دیتے تھے۔ جو ٹوئٹر ٹرینڈ شروع کیے گئے وہ یہ تھے:GoToGHQ NikloGHQkiTaraf، Khanourredline ان ٹوئٹر ٹرینڈ کی مدد سے منظم انداز سے جھوٹ اور غلط معلومات پھیلائیں گئیں اور تشدد بھڑکانے میں اہم کردار ادا کیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق، ’عمران خان کی گرفتاری کے فوراً بعد، کچھ غیر ملکی وی لاگرز نے ویڈیو پیغامات اپ لوڈ کیے جن میں تشدد کے بے بنیاد الزامات عائد کیے گئے اور لوگوں کو ریاستی اداروں پر حملے کی ترغیب دی، ان میں سے بہت سے بلاگرز نے عام لوگوں کو فوجی تنصیبات پر حملے کیلئے اکسایا۔

سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ انہوں نے مسلح افواج میں بغاوت کو ہوا دینے کی کوشش کی اور افسران اور جوانوں کو اپنی کمان کیخلاف بغاوت پر آمادہ کرنے کیلئے اکسایا، ان بلاگرز میں عادل راجہ، حیدر مہدی، وجاہت خان، معید پیرزادہ اور شاہین صہبائی شامل ہیں، عادل راجہ اور حیدر مہدی نے فوجی افسران کو بغاوت کی ترغیب دی۔‘

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کن شہروں میں ہونے والے مظاہروں نے کیسے پرتشدد شکل اختیار کی:

’لاہور میں احتجاج تقریباً تین بجے شروع ہوا جب لوگ لبرٹی چوک پر جمع ہونا شروع ہوئے۔ تقریباً چار بجے ڈاکٹر یاسمین راشد لبرٹی چوک پہنچیں اور مظاہرین کور کمانڈر کی رہائش گاہ (جناح ہاؤس) کی طرف بڑھنے لگے۔ شام 6؍ بجے تک مظاہرین جناح ہاؤس میں داخل ہوئے اور مکمل توڑ پھوڑ کے بعد اسے نذر آتش کر دیا۔ مظاہرین نے قریبی میس آفس اور سی ایس ڈی پر بھی حملہ کیا اور توڑ پھوڑ کی۔ رات دس بجے تک یہی ہجوم مین بولیوارڈ تک پہنچا جہاں عسکری ٹاور اور عسکری بینک کو نذر آتش کیا گیا۔ مظاہرین کے ایک گروپ نے 180-H ماڈل ٹاؤن میں نون لیگ کے سیکرٹریٹ پر بھی حملہ کیا۔ شہر کے مختلف حصوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور مظاہرین کے درمیان مسلسل جھڑپیں ہوتی رہیں۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اندازے کے مطابق لاہور میں مظاہرین کی کل تعداد دو ہزار کے قریب تھی اور ان لوگوں نے مظاہرین کی قیادت کی اور انہیں اُکسایا: زبیر نیازی، عمر چیمہ، حماد اظہر، اعجاز چوہدری، حسن نیازی، عائشہ اقبال، عالیہ حمزہ، منزہ حسن، مسرت چیمہ، علیمہ خان اور نوشین حامد۔

راولپنڈی: شام پانچ بجے تک مظاہرین لیاقت باغ میں جمع ہو چکے تھے۔ پانچ بجے سے چھ بجے کے درمیان سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی رہنماؤں کے متعدد آڈیو بیانات سامنے آئے جن میں مظاہرین پر زور دیا گیا کہ وہ جی ایچ کیو چلے جائیں۔ چھ بجے تک ہجوم جی ایچ کیو پہنچ چکا تھا۔ ہجوم نے پرتشدد شکل اختیار کر لی، جی ایچ کیو کے باہر ایک مجسمہ اور استقبالیے میں شیشے کا دروازہ توڑ دیا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے جی ایچ کیو میں داخل ہونے والے ہجوم کو پسپا کر دیا تاہم ہجوم نے ملٹری ہسٹری میوزیم اور آرمی سگنلز میس میں توڑ پھوڑ کی، کئی گاڑیوں کو بھی نذر آتش کیا۔

اسی دوران ایک گروہ نے حمزہ کیمپ پر حملہ کیا اور عمارت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ رات دس بجے تک ہجوم نے آرمی ویلفیئر ٹرسٹ پلازہ پر حملہ کیا اور داخلی دروازے کو آگ لگا دی۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں اور مظاہرین کے درمیان کئی گھنٹوں تک جھڑپ ہوئی جس میں کئی اہلکار زخمی ہوئے۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اطلاع کے مطابق مندرجہ ذیل لوگوں نے مظاہرین کی قیادت کی اور انہیں اکسایا:

صداقت عباسی، کنول شوزب، واثق قیوم، عمر بٹ، جہانگیر بٹ، راجہ عثمان، عاطف قریشی، مسلم خان، ذیشان ممتاز، قیصر خان، ذکی بٹ، ملک عابد، سیمابیہ طاہر، آصف محمود، طیبہ ابراہیم، شبانہ فیاض، اظہر میر اور حسیب نقوی۔

گوجرانوالہ: شام سات بجکر 40؍ منٹ تک تقریباً 100مظاہرین کے ایک گروہ نے گوجرانوالہ کینٹ میں داخلے کی کوشش کی، لیکن قانون نافذ کرنے والے اداروں نے انہیں پسپا کر دیا۔

مظاہرین نے حملے جاری رکھے اور بالآخر راہوالی گیٹ اور مرکزی استقبالیے کو تباہ کر دیا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی رپورٹ کے مطابق مندرجہ ذیل افراد مظاہرین کی قیادت کر رہے تھے: جمال چیمہ، باؤ اکرم، شبیر مہر، علی اشرف مغل، مہر ایم صادق، رضوان بٹ، عمر اشرف، انصار نٹ، نجف شیرازی، رانا ذکاء اللہ اور اسد اللہ پپا۔

میانوالی: شام پانچ بجے کے قریب پی ٹی آئی کے ایک ہزار کارکنوں نے ایم ایم عالم ایئربیس، میانوالی پر حملہ کیا۔ اس گروپ کی قیادت پی ٹی آئی کے سابق رکن پارلیمنٹ امجد علی خان اور ملک احمد خان کر رہے تھے۔ مظاہرین نے چار دیواری کو نقصان پہنچایا، ایئر بیس کے مرکزی داخلی دروازے کو توڑ دیا اور ایک ماڈل طیارے کو آگ لگا دی۔ ہجوم کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے پسپا کر دیا۔ پھر اسی ہجوم نے پولیس سروس مرکز، جوڈیشل کمپلیکس اور تجارتی اداروں بشمول نیشنل بینک، پنجاب بینک اور جنرل پوسٹ آفس پر حملہ کیا اور انہیں نقصان پہنچایا۔ کئی دکانیں لوٹ لیں اور گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا۔

اگلے دن انہی دو افراد کی قیادت میں ایک گروہ نے میانوالی بنوں سڑک بند کر دی اور پولیس تھانہ کمار مشانی پر حملے اور نقصان پہنچانے سے قبل کئی گاڑیوں پر حملہ کیا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی رپورٹ کے مطابق مندرجہ ذیل لوگوں نے مظاہرین کی قیادت اور اکسایا: امجد علی خان، ملک احمد خان، سلیم گل خان، امیر خان سوانسی، عالم خان، اور امین اللہ خان۔

اسلام آباد: 10مئی کو تقریباً سہ پہر تین بجے خیبر پختونخوا سے پی ٹی آئی کارکنوں کا ایک ہزار افراد پر مشتمل ایک گروپ اسلام آباد پہنچا اور ایس پی آفس انڈسٹریل ایریا پر حملہ کر کے اسے آگ لگا دی۔ اس کے بعد انہوں نے رمنا پولیس اسٹیشن پر حملہ کیا۔ ہجوم نے کئی گاڑیوں کو نقصان پہنچایا۔ اس ہجوم کی قیادت شہریار آفریدی، خالد وزیر، عامر مغل، جہانگیر، وجاہت سمیع، خالد خان اور راجہ شاہد نواز کررہے تھے۔

ملتان: شام چھ بجے کے قریب پی ٹی آئی کے کارکن سی ایم ایچ چوک پر جمع ہوئے۔ سات بجے تک یہ تعداد تقریباً ایک ہزار تک بڑھ چکی تھی۔ ہجوم نے فوجی بھرتی مرکز، آرمی چیک پوسٹ اور نیشنل بینک سمیت قرب و جوار کی عمارتوں پر حملہ کرکے نقصان پہنچایا۔ ہجوم کو متحرک اور قیادت کرنے والوں میں ملک عامر ڈوگر، سلیم اختر لابر، ندیم قریشی، خالد جاوید وڑائچ، خرم لیاقت اور زین قریشی شامل تھے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے، ’کمیٹی کو اس بات کی نشاندہی پر گہرا افسوس ہوا ہے کہ اس قدر نقصان پہنچانے کے باوجود عمران خان کو کوئی پچھتاوا نہیں اور ابتدائی طور پر یہ کہتے ہوئے الزام کو مسترد کیا کہ یہ تو ہونا ہی تھا اور جب تک الزامات ختم نہیں کیے جاتے اس وقت ایسا دوبارہ ہو سکتا ہے۔

عمران خان نے 9؍ مئی 2023ء کے واقعات کی ذمہ داری کبھی قبول نہیں کی اور نہ اپنے یا پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں کے کردار پر پشیمانی کا اظہار کیا۔ تاہم، کئی روز بعد انہوں نے تشدد کی مذمت کی لیکن اس کا قصور وار آئی ایس آئی کو قرار دیا۔

مزید خبریں :