15 مئی ، 2024
2023 میں گوگل نے کہا تھا کہ آرٹی فیشل انٹیلی جنس (اے آئی) ٹیکنالوجی سرچ کا مستقبل ہے۔
اب ایسا لگتا ہے کہ کمپنی کی جانب سے اس پر عملدرآمد شروع کر دیا گیا ہے۔
گوگل نےسالانہ ڈویلپر کانفرنس کے موقع پر اے آئی اوور ویوز نامی فیچر سرچ انجن کے لیے متعارف کرایا ہے۔
یہ فیچر پہلے امریکا میں متعارف کرایا جا رہا ہے مگر بہت جلد دنیا بھر میں صارفین کو دستیاب ہوگا۔
کمپنی کے مطابق اس فیچر کے ذریعے جب کسی موضوع کو سرچ کریں گے تو سرچ رزلٹس کے اوپر اے آئی پر مبنی ایک سمری نظر آئے گی۔
درحقیقت یہ سرچ انجن کو اے آئی ٹیکنالوجی سے بدلنے کا آغاز ہے۔
گوگل سرچ کی سربراہ لز ریڈ نے بتایا کہ جنریٹیو اے آئی کے ذریعے گوگل آپ کے لیے سرچنگ سے ہٹ کر بھی دیگر چیزوں کے لیے مددگار ثابت ہوسکے گا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اے آئی اوور ویوز کے ذریعے موضوعات کے بارے میں ویب لنکس کے ساتھ ساتھ ایک سمری کی شکل میں تفصیلات یا جواب فراہم کیے جائیں گے۔
اسی طرح کمپنی کی جانب سے گوگل لینس کے لیے بھی ایک نئے اے آئی فیچر پر کام کیا جا رہا ہے جس کے ذریعے آپ کسی ویڈیو کے اندر موجود چیزوں کے بارے میں بھی سرچ کر سکیں گے۔
ایک اور ایسا ٹول بھی تیار کیا جا رہا ہے جو لوگوں کے پوچھنے پر کسی تفریحی دورے یا ہوٹل کے کھانوں کی تفصیلات فراہم کرے گا۔
گوگل کی جانب سے جیمنائی اے آئی ماڈل کو سرچ انجن کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ سادہ سرچ انجن کو اے آئی سرچ انجن میں تبدیل کر دیا جائے۔
اس مقصد کے لیے ڈیسک ٹاپ صارفین کے لیے جیمنائی کا ایک خصوصی ماڈل استعمال کیا جائے گا جو آپ کے سوالات کا جواب دیا جائے گا، مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ اے آئی ماڈل سرچ رزلٹس بھی فراہم کرے گا۔
لز ریڈ کے مطابق ہر سرچ کے لیے اے آئی ٹیکنالوجی کو استعمال نہیں کیا جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ اگر آپ کسی ویب لنک جیسے گوگل ڈاٹ کام کو سرچ کرنا چاہتے ہیں، تو اس کے لیے اے آئی کا استعمال فائدہ مند نہیں ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ جیمنائی زیادہ پیچیدہ سرچز یعنی ایسی چیزوں کے بارے میں سرچ کرنے میں زیادہ مددگار ثابت ہوگا جن کے بارے میں بار بار سرچ کرنا پڑتا ہے یا آپ ان کے لیے گوگل کا رخ نہیں کرتے۔
لز ریڈ نے بتایا کہ ہر چیز کا توازن برقرار رکھنا کسی چیلنج سے کم نہیں اور یہی وجہ ہے کہ اے آئی اوور ویوزٹول مخصوص موضوعات پر کام نہیں کرے گا۔
مگر ان کا کہنا تھا کہ ابتدائی ڈیٹا سے عندیہ ملتا ہے کہ سرچ کا یہ نیا انداز لوگوں کو زیادہ ویب لنکس کھولنے پر مجبور کر تا ہے۔