Time 06 جون ، 2024
پاکستان

سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس میں حکومتی اپیلوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا

سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس میں حکومتی اپیلوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا
فوٹو: فائل

سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی انٹرا کورث اپیلوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

نیب  ترامیم کالعدم قرار  دینے کےخلاف حکومتی اپیلوں پر سماعت چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر  بینچ نے کی، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی بینچ میں شامل ہیں۔

آج کی سماعت میں وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ تحریری معروضات میں عدالتی فیصلے کے مختلف نکات کی نشاندہی کی ہے، میں نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر اپنے دلائل تحریر کیے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا آپ اپنی معروضات عدالت میں جمع کرا دیں،کیا آپ فیصلے کو سپورٹ کر رہے ہیں؟ جس پر فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا میں جسٹس منصور علی شاہ کے نوٹ کو سپورٹ کر رہا ہوں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کیا آپ مخدوم علی خان کے دلائل اپنا رہے ہیں؟ جس پر فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا میرا مؤقف وہی ہے لیکن دلائل میرے اپنے ہیں۔

سپریم کورٹ کی جانب سے معاونت کے لیے بلائے گئے وکیل خواجہ حارث عدالت میں پیش ہوئے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کیا آپ کے مؤکل 90 روز کے ریمانڈ سے مطمئن تھے؟ نیب جس انداز میں گرفتاریاں کرتا تھا کیا وہ درست تھا؟

وکیل خواجہ حارث نے کہا نیب میں بہت سی ترامیم اچھی ہیں، 90 روز کے ریمانڈ سے مطمئن تھے نہ گرفتاریوں سے، جو ترامیم اچھی تھیں انہیں چیلنج نہیں کیا گیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا نیب آرڈیننس کب آیا تھا؟ جس پر وکیل خواجہ حارث نے بتایا کہ نیب قانون 1999 میں آیا تھا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا 1999 میں کس کی حکومت تھی؟ نام لے کر بتائیں، خواجہ حارث نے کہا 1999 میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت تھی، پرویز مشرف سے قبل نواز شریف کے دور حکومت میں اسی طرح کا احتساب ایکٹ تھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے آپ کے مؤکل کی حکومت آئی تو احتساب ایکٹ بحال کر دیتے، پرویز مشرف نے تو کہا تھا نیب کا مقصد کرپٹ سیاستدانوں کو سسٹم سے نکالنا ہے، بانی پی ٹی آئی کی درخواست پر بھی کچھ ایسا ہی تھا۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا ہماری درخواست میں کسی سیاستدان کا نام نہیں لکھا گیا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے بظاہر بانی پی ٹی آئی کی حکومت بھی صرف سیاستدانوں کا احتساب چاہتی تھی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ خواجہ حارث صاحب چلیں آپ میرٹ پر دلائل دے دیں جبکہ چیف جسٹس نے پوچھا پریکٹس اینڈ پروسیجر کے بعد نیب ترامیم پر بینچ کیسے بنا؟ وجہ بتائیں۔

خواجہ حارث نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ کے نوٹ میں طے ہو چکا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کا بینچ اس فیصلے کا حصہ بن چکا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر التوا درخواست کو واپس لگانے کی کوشش کیوں نہیں ہوئی؟ باہر کیمرے پر جا کر گالیاں دیں گے یہاں آکر ہمارے سامنے تنقید کریں نا؟ 

نیب ترامیم کالعدم ہوئی تو نقصان آپ کے مؤکل کا ہوگا، جسٹس اطہر کا خواجہ حارث سے مکالمہ

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہائیکورٹ کے ذریعے اٹارنی جنرل کو نوٹس ہوا تھا، اٹارنی جنرل نے کیوں کوشش نہیں کی کہ کیس دوبارہ لگے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا اس وقت موسم گرما کی تعطیلات شروع ہو چکی تھیں۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ جب پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون بنا تو میں نے عدالت میں بیٹھنا ہی چھوڑ دیا تھا، اس وقت بحث چل رہی تھی کہ اختیار میرا ہے یا کسی اور کا ہے، بابر جا کر بڑے شیر بنتے ہیں لیکن سامنے آکر اس پر مجھ سے کوئی بات نہیں کرتا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیےکہ اس کیس کی جے آئی ٹی میں آئی ایس آئی اور ایم آئی جیسے طاقتور ادارے تھے، بتائیں اس کیس کا کیا بنا؟

خواجہ حارث نے کہا طاقتور اداروں کی موجودگی کے باوجود اس کیس میں کچھ ثابت نہ ہو سکا، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا خواجہ صاحب بتا دیں کون کونسی ترامیم کو چیلنج کیا گیا تھا، آپ نے سیکشن 9 فائیو اے میں ترامیم کو چیلنج کیا تھا، سیکشن 14 کے حذف کرنےکو چیلنج کیا تھا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا نیب کا مقصد ہی سیاسی انجینیئرنگ کے لیے تھا، خواجہ حارث صاحب، آپ اپنے مؤکل کو مشکل میں ڈال رہے ہیں، نیب ترامیم کالعدم ہوئیں تو آپ کے مؤکل کو نقصان ہوگا۔

 خواجہ حارث نے کہا کہ عمران خان نیب سمیت دیگر مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں، مشکلات کے باوجود عمران خان آج بھی ترامیم کا کیس لڑ رہے ہیں، عمران خان جانتے تھے ترامیم کالعدم ہونے سے ان کے لیے مشکلات ہوں گی۔

جسٹس اطہر من اللہ نےکہا کہ عمران خان کو اپنے اثاثے آمدن کے مطابق ثابت کرنےکا کہیں تو مشکل پڑ جائےگی، کیا یہ بلیک میلنگ نہیں کہ کسی کو بھی اثاثے آمدن کے مطابق ثابت کرنےکا کہیں؟

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ مجھ سے کوئی کہے اپنےگھر کی رسیدیں دو تو میں نہیں دے سکوں گا،  جائز اثاثوں کا حساب دینا بھی ناممکن ہوتا ہے۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ کیا اب پانی پی ٹی آئی کو کہہ دیا جائے پرانےقانون کے تحت اپنے اثاثے ثابت کریں، آپ عوامی نمائندوں کے لیے مشکلات بنا رہے ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نےکہا کہ احتساب کا اتنا ہی سخت مؤقف تھا تو ٹیکس ایمنسٹی کیوں دیتے رہے؟ برطانیہ میں برسوں سےجمہوریت ہے، وہاں ٹیکس ایمنسٹی کیوں نہیں دی جاتی؟وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ یہ معاشی فیصلے ہوتے ہیں اس پر بات نہیں کرنا چاہتا۔ الیکشن کمیشن نے اثاثوں کے الگ گوشوارے بنا رکھے ہیں،  انکم ٹیکس کی تفصیل کیوں نہیں مانگی جاتی اس طرف کیوں نہیں جاتے؟

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ آپ کو آئین سے بتانا ہوگا، ترامیم سے حقوق کیسے متاثر ہوئے؟  ترامیم سے تو نیب سے ڈریکونین اختیارات واپس لیےگئے۔

چیف جسٹس نےکہا کہ وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے ایک لسٹ جمع کرائی تھی، لسٹ میں بتایا گیا تھا کہ 2019 میں اس وقت کی حکومت نے نیب ترامیم کی تھیں، مخدوم علی خان کے مطابق وہ ترمیم کریں تو غلط اگر پی ٹی آئی کرے تو ٹھیک۔

خواجہ حارث نےکہا کہ  نیب ترامیم کے بعد احتساب عدالتوں سے تمام ریفرنس واپس ہوگئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ممکن ہے نیب ترامیم کا آپ کے مؤکل کو فائدہ ہو۔

عمران خان کے سپریم کورٹ میں دلائل

وقفے کے بعد  بانی پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ میں دلائل کا آغاز کیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بانی پی ٹی آئی عمران خان سے کہا کہ کیا آپ کیس سے متعلق کچھ کہنا چاہتے ہیں؟

عمران خان نے ویڈیو لنک پر جواب دیا کہ  مجھے ایک چیز سمجھ نہیں آئی، آپ نے لکھا میں نے گزشتہ سماعت پر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی، مجھے سمجھ نہیں آئی کون سی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی؟

 چیف جسٹس نے کہا کہ  آپ اردو میں میں بات کریں تو بہت ہوگا۔

عمران خان نے کہا کہ مجھے تکلیف ہوئی، کہا گیا میں غیرذمہ دار کیریکٹر ہوں، کہا گیا میں غیر ذمہ دار کیریکٹر ہوں جس کے باعث براہ راست نشر نہیں کیا جائےگا۔

 چیف جسٹس نے کہا کہ  جج اپنے فیصلے کی وضاحت نہیں دیا کرتے، آپ نظر ثانی دائر کرسکتے ہیں۔

 عمران خان نے کہا کہ  میں نیب ترامیم کیس میں حکومتی اپیل کی مخالفت کرتاہوں، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ترامیم ہوئیں تو میرا نقصان ہوگا، مجھے 14 سال کی قید ہوگئی کہ میں نے توشہ خانہ تحفےکی قیمت کم لگائی۔ پونےدو کروڑ  روپےکی میری گھڑی تین ارب روپے میں دکھائی گئی، میں کہتا ہوں نیب کا چیئرمین سپریم کورٹ تعینات کرے، حکومت اور اپوزیشن میں چیئرمین نیب پر اتفاق نہیں ہوتا تو تھرڈ امپائر تعینات کرتا ہے، نیب اس کے بعد تھرڈ امپائر کے ماتحت ہی رہتا ہے، نیب ہمارے  دور  میں  بھی ہمارے ماتحت نہیں تھا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ آپ کیا کہتےہیں پارلیمنٹ ترمیم کرسکتی ہے یا نہیں؟ اس پر عمران خان نے جواب دیا کہ  فارم 47 والے ترمیم نہیں کرسکتے۔جسٹس جمال مندوخیل نےکہا  آپ پھر اسی طرف جا رہے جو کیسز  زیر التوا ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ  عمران خان صاحب ان ترامیم کوکالعدم کرنےکی کوئی وجہ نہیں تھی، آپ نے میرا نوٹ نہیں پڑھا شاید، نیب سے متعلق آپ کے بیان کے بعد کیا باقی رہ گیاہے، عمران خان آپ کا نیب پرکیا اعتبار  رہےگا؟

بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ  میرے ساتھ 5 روز میں نیب نے جو کیا اس کے بعد کیا اعتبار ہوگا؟ 27 سال قبل بھی نظام کا یہی حال تھا جس کے باعث سیاست میں آیا، غریب ملکوں کے7 ہزار  ارب ڈالر  باہر پڑے ہیں، اس کو  روکنا ہوگا، میں اس وقت نیب کو بھگت رہا ہوں ،  نیب کو  بہتر ہونا چاہیے،کرپشن کے خلاف ایک مخصوص ادارے کی ضرورت ہے، میں جیل میں ہی ہوں، ترمیم بحال ہونے سے میری آسانی تو  ہوجائے گی لیکن ملک کا دیوالیہ ہو جائےگا۔ دبئی لیکس میں بھی نام آچکے، پیسے ملک سے باہر جارہے ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ عمران خان آپ کی باتیں مجھے بھی خوفزدہ کررہی ہیں، حالات اتنے خطرناک ہیں تو ساتھی سیاستدانوں کے ساتھ بیٹھ کر حل کریں، جب آگ لگی ہو تو نہیں دیکھتے کہ پاک ہے ناپاک، پہلے آپ آگ تو بجھائیں۔

عمران خان نے کہا کہ  بھارت میں کیجریوال کو آزاد کرکے، سزا معطل کرکے انتخابات لڑنے دیا گیا، مجھے 5 دنوں میں ہی سزائیں دے کر انتخابات سے باہر کردیا گیا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ تو سیاسی نظام کس نے بنانا تھا؟ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ  بدقسمتی سے آپ جیل میں ہیں، آپ سے لوگوں کی امیدیں ہیں۔

عمران خان نے کہا کہ  میں دل سے بات کروں تو ہم سب آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں، پاکستان میں غیر اعلانیہ مارشل لاء لگا ہوا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ  کچھ بھی ہوگیا تو ہمیں شکوہ آپ سے ہوگا،  ہم آپ کی طرف دیکھ رہے، آپ ہماری طرف دیکھ رہے۔

بانی پی ٹی آئی نے سائفر کیس کا حوالہ دینا چاہا تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے روک دیا اور کہا کہ  سائفرکیس میں شاید اپیل ہمارے سامنے آئے۔

جسٹس حسن اظہر نے کہا کہ  آپ نے پارلیمنٹ میں بیٹھ کر کیوں نیب بل کی مخالف نہیں کی؟

عمران خان نے کہا کہ  یہی وجہ بتانا چاہتا ہوں کہ حالات ایسے بن گئے تھے، شرح نمو 6 اعشاریہ 2  پر تھی، حکومت سازش کے تحت گرا دی گئی، پارلیمنٹ جا کر اسی سازشی حکومت کو  جواب نہیں دے سکتا تھا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ خان صاحب آپ دو مختلف باتیں کر رہے ہیں ، ایک طرف آپ احتساب کی بات کر رہے ہیں دوسری طرف ایمنسٹی دیتے ہیں۔ عمران خان نےکہا کہ  ہم نے حکومت میں آکربلیک اکانومی کو مین اسٹریم میں لانے کے لیے ایمنسٹی دی۔

پارلیمنٹ میں بیٹھ کر مسائل حل کریں: چیف جسٹس

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ  پارلیمنٹ میں بیٹھ کر مسائل حل کریں ، ملک کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ہم سیاسی بات نہیں کرنا چاہ رہے تھے مگر آپ کو روک نہیں رہے،  ڈائیلاگ سے کئی چیزوں کا حل نکلتا ہے۔

سپریم کورٹ نے نیب ترامیم میں حکومتی اپیلوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

 نیب ترامیم کیس کیا ہے؟ 

یاد رہےکہ پی ڈی ایم دور حکومت میں حکومتی اتحاد کی جانب سے پارلیمنٹ میں نیب قانون کے سیکشن 2، 4، 5، 6، 25 اور 26 میں ترامیم منظور کی گئی تھیں، اس کے علاوہ نیب قانون کے سیکشن 14، 15، 21 اور 23 میں بھی ترامیم منظور کی گئی تھیں۔

پارلیمنٹ کی جانب سے منظور کی گئی نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

سابق چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے 5 ستمبر 2023 کو کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا اور اس حوالے سے جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا ریٹائرمنٹ سے پہلے اس اہم کیس کا فیصلہ کرکے جاؤں گا۔

عدالت عظمیٰ کے تین رکن بینچ میں چیف جسٹس پاکستان کے ساتھ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ شامل تھے۔

سابق چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے اپنی مدت ملازمت کے آخری روز (15 ستمبر 2023) اس کیس کا فیصلہ دو ایک کی اکثریت سے سنایا۔ تین رکنی بینچ میں شامل جسٹس منصور علی شاہ نے فیصلے پر اختلاف کیا تھا۔

عدالت عظمیٰ نے عمران خان کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے نیب ترامیم کی 10 میں سے 9 ترامیم کالعدم قرار دی تھیں۔ اس فیصلےکے خلاف وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے انٹراکورٹ اپیلیں دائر کیں جب کہ بانی پی ٹی آئی نے نیب ترامیم کیس میں خود پیش ہونے کی درخواست دی تھی، سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے بانی پی ٹی آئی کی بذریعہ ویڈیو لنک پیشی کی اجازت دی تھی۔

سپریم کورٹ نے 10 مئی 2024 کو نیب ترامیم کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلیں سماعت کے لیے مقرر کرتے ہوئے 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔ عدالت نے مختلف سماعتوں کے بعد آج فیصلہ محفوظ کرلیا۔

مزید خبریں :