23 جون ، 2024
کچھ جانور جیسے مگر مچھ اپنے دانت زندگی بھر اگانے کی صلاحیت رکھتے ہیں مگر انسان ایسا نہیں کر سکتے۔
بچپن میں ٹوٹ جانے کے بعد اگنے والے دانت اگر ٹوٹ جائیں تو پھر ان کی جگہ لینے والا کوئی نہیں ہوتا۔
مگر اب سائنسدانوں نے اس حوالے سے پیشرفت کی ہے جس کی مدد سے نئے دانت اگانے کا عمل ممکن ہو جائے گا۔
جی ہاں اس حوالے سے پہلی دوا آئندہ چند برس میں عام دستیاب ہوگی، مگر اس کا انحصار ایک کلینیکل ٹرائل پر ہوگا جس کا آغاز ستمبر 2024 میں ہوگا۔
پہلے مرحلے کے اس ٹرائل میں 30 بالغ مردوں کو شامل کرکے دوا کی افادیت اور اس کے محفوظ ہونے کی آزمائش کی جائے گی۔
یہ پہلی بار ہوگا جب اس طرح کی دوا کی آزمائش انسانوں پر کی جائے گی۔
اس دوا کی آزمائش اب تک جانوروں پر کی گئی ہے اور نتائج حوصلہ افزا رہے۔
درحقیقت اس دوا کی ایک خوراک ہی جانوروں میں دانتوں کو دوبارہ اگانے کے لیے کافی ثابت ہوئی۔
چوہوں پر اس دوا کے استعمال سے کوئی منفی اثرات بھی ظاہر نہیں ہوئے اور اسی لیے ا ب انسانوں پر اس کی آزمائش کی جا رہی ہے۔
جاپانی سائنسدانوں کی جانب سے اس دوا کو تیار کیا گیا ہے۔
محققین نے ایک اینٹی باڈی USAG-1 کو دریافت کیا اور چوہوں پر تجربات کے دوران نئے دانت اگانے کے عمل کو متحرک کرنے میں کامیابی حاصل کی۔
اس حوالے سے تحقیق کے نتائج 2021 میں سامنے آئے تھے جس میں بتایا گیا کہ اس اینٹی باڈی کے ذریعے ایسے جینز کو ہدف بنایا گیا جو دانتوں کی نشوونما میں کردار ادا کرتے ہیں۔
تحقیقی ٹیم کے قائد Katsu Takahashi نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ہم 1990 کی دہائی سے اس دوا کی تیاری کے لیے کام کر رہے ہیں اور کامیابی کے لیے پر اعتماد ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ جو افراد بلوغت میں دانتوں سے محروم ہوتے ہیں، ان کے پاس مصنوعی دانتوں کے استعمال کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہوتا۔
Katsu Takahashi نے کہا کہ مستقبل قریب میں مصنوعی دانتوں کے ساتھ ساتھ یہ دوا بھی بہترین آپشن ہوگی اور لوگوں کو قدرتی دانت دوبارہ حاصل کرنے کا موقع ملے گا۔
ستمبر میں شروع ہونے والا ٹرائل 11 ماہ تک جاری رہے گا اور اگر وہ کامیاب رہا تو دوسرے مرحلے میں بچوں پر اس دوا کی آزمائش کی جائے گی۔
محققین کے مطابق اگر کلینیکل ٹرائلز کامیاب رہتے ہیں تو یہ دوا آئندہ 6 برسوں میں عام دستیاب ہوگی۔