18 جون ، 2024
آج کل نوجوانوں سے لے کر بوڑھے افراد تک سب سافٹ ڈرنکس یا میٹھے مشروبات کا استعمال بہت زیادہ کرتے ہیں۔
حالیہ برسوں میں ان مشروبات کے استعمال سے صحت پر مرتب اثرات کے حوالے سے متعدد طبی تحقیقی رپورٹس سامنے آئی ہیں۔
درحقیقت اگر آپ روزانہ ورزش کرتے ہیں اور ہفتے میں بس ایک یا 2 بار سافٹ ڈرنکس پیتے ہیں تو بھی صحت پر تباہ کن اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
ہارورڈ ٹی ایچ چن اسکول آف پبلک ہیلتھ سے تعلق رکھنے والی طبی ماہر لورینا پیکاچو کے مطابق اعتدال میں رہ کر میٹھے مشروبات کا استعمال بھی نقصان دہ ہوتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ویسے تو ہم ماہرین کی جانب سے ہر چیز کو اعتدال میں رہ کر استعمال کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے مگر چینی سے بنے مشروبات اس میں شامل نہیں، ان سے گریز کرنا ضروری ہے۔
ان کے زیرتحت ایک لاکھ سے زائد افراد پر ہونے والی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ورزش کرنے کے عادی افراد اگر ہر ہفتے صرف 2 میٹھے مشروبات کا استعمال کرتے ہیں، تو ان میں امراض قلب کا خطرہ دیگر کے مقابلے میں 15 فیصد تک زیادہ بڑھ جاتا ہے۔
اسی طرح جو افراد ہر ہفتے 2 سافٹ ڈرنکس کا استعمال کرتے ہیں اور ورزش سے دور رہتے ہیں، ان میں امراض قلب کا خطرہ 50 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ بہتر تو یہ ہے کہ جس حد تک ممکن ہو چینی سے بنے مشروبات کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے اور ان کی جگہ پانی کو دینی چاہیے۔
یہ کوئی راز نہیں کہ کسی بھی شکل میں چینی کا زیادہ استعمال مختلف امراض کا خطرہ بڑھاتا ہے مگر اب تک کے شواہد سے عندیہ ملتا ہے کہ سیال چینی سب سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔
میٹھے مشروبات میں دیگر غذائی اجزا جیسے فائبر، پروٹین اور چکنائی موجود نہیں ہوتے جس سے چینی کے ہضم ہونے کا عمل سست ہوتا ہے اور خون میں شکر بھی سست روی سے جذب ہوتی ہے۔
مگر ٹھوس غذا کے مقابلے میں یہ مشروبات زیادہ تیز رفتار سے معدے سے چھوٹی آنت میں منتقل ہوتے ہیں جس کے باعث ہمارے جسم کو ایک وقت میں بہت زیادہ مقدار میں شکر کو میٹابولائز کرنا پڑتا ہے، جس سے بلڈ شوگر کی سطح بڑھتی ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق ان مشروبات میں موجود چینی کی زیادہ مقدار ہمارے جسم کے میٹابولزم میکنزم کے لیے بہت زیادہ ہوتی ہے جس سے صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
ان مشروبات میں موجود چینی کی زیادہ مقدار چھوٹی آنت میں پہنچتی ہے اور وہاں سے ایک شریان کے ذریعے جگر تک پہنچ جاتی ہے۔
جگر شکر میں موجود گلوکوز کی براہ راست خون میں پہنچا دیتا ہے جس سے بلڈ شوگر کی سطح میں اضافہ ہوتا ہے اور دیگر اعضا پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق اگر شکر فوری طور پر خون سے کلیئر نہ ہو تو یہ پروٹینز پر اثر انداز ہوتی ہے اور جسمانی ورم بڑھتا ہے جس سے امراض قلب کا خطرہ بڑھتا ہے۔
جب بلڈ شوگر کی سطح بڑھتی ہے تو لبلے کی جانب سے انسولین بنانے کا عمل بھی تیز ہو جاتا ہے۔
یہ ہارمون خون میں موجود شکر کو نکال کر خلیات میں منتقل کرتا ہے یا توانائی کے لیے ذخیرہ کرلیتا ہے۔
مگر جب یہ عمل بار بار ہوتا ہے تو خلیات کی جانب سے انسولین پر ردعمل گھٹ جاتا ہے جسے انسولین کی مزاحمت کہا جاتا ہے اور اس کے جواب میں لبلبہ مزید انسولین بناتا ہے اور بتدریج بلڈ شوگر کی سطح میں خطرناک حد تک اضافہ ہو جاتا ہے۔
ماہرین نے بتایا کہ جسم میں گلوکوز اور انسولین کی سطح میں اضافے سے خون کی شریانوں کو نقصان پہنچتا ہے، ذیابیطس کا خطرہ بڑھتا ہے اور دیگر پیچیدگیوں کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ انسولین کی مزاحمت کو امراض قلب کا خطرہ بڑھانے والا اہم عنصر مانا جاتا ہے۔
ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ میٹھے مشروبات کے استعمال سے جگر کے امراض کا خطرہ بھی بڑھتا ہے کیونکہ ہمارا جگر شکر کی زیادہ مقدار کو پراسیس کرنے سے قاصر ہو جاتا ہے۔
مختلف تحقیقی رپورٹس میں میٹھے مشروبات کے زیادہ استعمال کو تکسیدی تناؤ، ورم، ہائی بلڈ پریشر، انسولین کی مزاحمت اور خون میں چکنائی کی سطح میں اضافے سے منسلک کیا جاتا ہے، یہ سب عناصر امراض قلب کا خطرہ بڑھاتے ہیں۔
تحقیقی رپورٹس میں یہ بھی بتایا گیا کہ ہمارا دماغ بھی سیال کیلوریز کو سمجھ نہیں پاتا اور اس کے باعث ہم میٹھے مشروبات کی شکل میں زیادہ مقدار میں کیلوریز جسم کا حصہ بنا لیتے ہیں، جس سے جسمانی وزن میں اضافہ ہوتا ہے۔
جانوروں پر ہونے والے تحقیقی کام میں دریافت کیا کہ ان مشروبات سے معدے میں موجود نقصان دہ بیکٹریا کی افزائش ہوتی ہے اور ورم بڑھتا ہے جبکہ آنتوں پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
البتہ اس حوالے سے انسانوں پر تحقیقی کام زیادہ نہیں ہوا۔
ویسے تو میٹھے مشروبات کو مکمل طور پر زندگی سے نکال دینا انتہاپسندانہ محسوس ہوتا ہے مگر ماہرین کے خیال میں اعتدال میں رہ کر ان کا استعمال بھی بہت مشکل ہوتا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں پینے سے ان مشروبات کی خواہش بڑھتی ہے اور صحت پر مختلف منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
اسی لیے ماہرین کی جانب سے میٹھے مشروبات کی جگہ پانی کے استعمال کو بہترین قرار دیا جاتا ہے مگر بغیر چینی والی چائے یا کافی کو بھی بہترین متبادل قرار دیا جاتا ہے۔
نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔