24 جون ، 2024
صوبہ خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے کہا ہے کہ آپریشن عزم استحکام سے متعلق فی الحال کوئی چیز واضح نہیں، ایپکس کمیٹی میں کسی قسم کے آپریشن کا ذکر نہیں تھا، امن و امان اورانعامات دینےکی بات کی گئی جس کوعزم استحکام کانام دیاگیا۔
سابق وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کے بعد اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو میں علی امین گنڈا پور کا کہنا تھاکہ بانی پی ٹی آئی سے پالیسی پر بات ہوئی، پالیسی تھی کہ امن و امان قائم ہو اور دہشتگردی ختم ہو۔
انہوں نے کہا کہ ایپکس کمیٹی میں ایک پالیسی بنائی گئی، کمیٹی میں کسی قسم کے آپریشن کا ذکر نہیں تھا، امن و امان اورانعامات دینےکی بات کی گئی جس کوعزم استحکام کانام دیاگیا۔
ان کا کہنا تھاکہ آئی ایس پی آر کی پالیسی کے بعد بات کروں گا آپریشن ہوگا یا نہیں، عوام کو صوبوں کو اعتماد میں لینا ضروری ہے، تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینا ضروری ہے۔
سابق آرمی چیف سے متعلق وزیراعلیٰ کا کہنا تھاکہ ہماری حکومت میں فیض حمید تین سال تک افغانستان سے رابطے میں رہے، جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ نے فیض حمید کو ہٹا دیا، باجوہ کہتے تھے، لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید بہترین آرمی چیف بن سکتا ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ باجوہ کا امریکا یا نواز شریف کے ساتھ پلان تھا کہ فیض کو ہٹا دیا جائے، فیض حمید کو ہٹا دیا گیا پھر پاکستان تحریک انصاف کو ختم کرنے پر لگ گئے، باجوہ نے ایک پارٹی کو ختم کرنے کے لیے ملک کا نقصان کیا۔
ان کا کہناتھاکہ بلاول نے پوری دنیا کا چکر لگایا افغانستان نہیں گیا، ان کو پاکستان اور فوج کی پروا نہیں ہے کوئی پلان بنا کر افغانستان جاتے، اب بات چیت نہ کرکے مسئلہ بڑھتا جارہا ہے، بات چیت ہونی چاہیے، افغانستان سے بات کرنی ہے تو ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں کہا کہ میں آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں، میری جو بھی ملاقات ہوئی وہ ایک پروگرام میں ہوئی ہے، بانی پی ٹی آئی پاکستان کیلئے بیٹھنے کو تیار ہیں، ٹرمز اینڈ کنڈیشن مذاکرات پر یہی ہوں گی مینڈیٹ واپس کیا جائے، 9 مئی پر کمیشن بنایا جائے۔
خیال رہے کہ گزشتہ دنوں وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں انسداد دہشتگردی کے لیے آپریشن عزم استحکام کی منظوری دی گئی تھی۔
نیشنل ایکشن پلان سے متعلق ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر، وفاقی وزراء اور چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ بھی شریک تھے۔
پاکستان تحریک انصاف نے آپریشن عزم استحکام کی مخالفت کی ہے اور ایوان سے منظور کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔