Time 27 جون ، 2024
صحت و سائنس

پانی کی بوتلوں کو دن بھر ہاتھ میں لے کر گھومنے کا نقصان جانتے ہیں؟

پانی کی بوتلوں کو دن بھر ہاتھ میں لے کر گھومنے کا نقصان جانتے ہیں؟
یہ انتباہ ایک نئی تحقیق میں سامنے آیا / فائل فوٹو

اگر آپ پلاسٹک کے بوتل میں پانی پینے کے عادی ہیں اور اسے دن بھر اپنے ہاتھ میں لے کر گھومتے ہیں تو یہ عادت صحت کے لیے ممکنہ طور پر نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ سورج کی روشنی میں پانی کی بوتلوں سے زہریلے کیمیکلز کا اخراج ہوسکتا ہے۔

یہ انتباہ چین میں ہونے والی ایک تحقیق میں سامنے آیا۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ سورج کی روشنی میں پلاسٹک کی پانی کی بوتلوں میں متعدد اقسام کے مرکبات کا اخراج ہوتا ہے۔

یہ مرکبات ایسے کیمیکلز پر مبنی ہوتے ہیں جو کمرے کے درجہ حرارت پر آسانی سے بخارات بن جاتے ہیں۔

زیادہ تر کیمیکلز بے ضرر ہوتے ہیں مگر کچھ سے مختصر المدت اور طویل المعیاد بنیادوں پر صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

اس تحقیق میں 6 اقسام کی پلاسٹک کی بوتلوں پر سورج کی روشنی اور الٹرا وائلٹ شعاعوں سے مرتب اثرات کی جانچ پڑتال کی گئی۔

نتائج سے معلوم ہوا کہ سورج کی روشنی اور الٹرا وائلٹ شعاعوں سے بوتلوں میں متعدد اقسام کے کیمیکلز کا اخراج ہوتا ہے جن میں سے کچھ کافی زہریلے ہوتے ہیں۔

محققین کے مطابق کبھی کبھار تو ان بوتلوں سے پانی پینے سے صحت کو خطرہ لاحق نہیں ہوتا مگر زیادہ عرصے تک ان کے استعمال سے صحت کے لیے خطرہ بڑھتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ شواہد سے واضح ہوتا ہے کہ پلاسٹک کی بوتلوں میں سورج کی روشنی میں زہریلے کیمیکلز کا اخراج ہوتا ہے جس سے صحت کے لیے خطرات بڑھتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ویسے تو یہ خطرہ بہت زیادہ نہیں ہوتا مگر پھر احتیاط کی ضرورت ہے۔

اس تحقیق کے نتائج جرنل ایکو انوائرمنٹ اینڈ ہیلتھ میں شائع ہوئے۔

اس سے قبل جنوری 2024 میں کولمبیا یونیورسٹی اور Rutgers یونیورسٹی کی مشترکہ تحقیق میں دریافت کیا گیا تھا کہ ایسی بوتلوں میں موجود پانی میں پلاسٹک کے لاکھوں ننھے ذرات ہوتے ہیں۔

تحقیق کے مطابق بوتل میں موجود پانی میں اوسطاً فی لیٹر ڈھائی لاکھ پلاسٹک کے ننھے ذرات ہوتے ہیں۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ فی لیٹر پانی میں ایک لاکھ 10 ہزار سے 4 لاکھ پلاسٹک کے ذرات موجود ہو سکتے ہیں۔

مگر کیا یہ پلاسٹک کے ننھے ذرات انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں؟

سائنسدان ابھی تک اس سوال کا حتمی جواب نہیں جان سکے ہیں۔

محققین کے مطابق اس بارے میں تحقیقی کام جاری ہے، ہم ابھی یہ نہیں جان سکے کہ یہ ذرات کتنے خطرناک ہیں یا خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ہم یہ جانتے ہیں کہ یہ ذرات جسم کے مختلف حصوں میں پہنچ جاتے ہیں اور ابھی یہ جائزہ لیا جا رہا ہے کہ ان ذرات سے خلیات پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

مزید خبریں :