01 جولائی ، 2024
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے 2018 اور 2024 میں مخصوص نشستیں کیسے الاٹ کیے جانے کا فارمولا اور دستاویزات مانگ لیں۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13 رکنی فل کورٹ نے سنی اتحادکونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کی جس سلسلے میں سنی اتحاد کونسل اور الیکشن کمیشن کے وکلا نے دلائل دیے۔
دوران سماعت الیکشن کمیشن کے وکیل سکندربشیر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن ایکٹ کے تحت پارٹی سے وابستگی سرٹیفکیٹ اورفارم 66 ریکارڈ پر ہیں، تحریک انصاف نے پارٹی سے وابستگی سرٹیفکیٹ اور فارم 66 جاری کیے جن پر چیئرمین گوہرعلی خان نے دستخط کیے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ وابستگی سرٹیفکیٹ اورفارم 66 جاری ہوئے توپی ٹی آئی نےانٹراپارٹی انتخابات نہیں کرائےتھے، پی ٹی آئی نے فارم66 بائیس دسمبر اور پارٹی سے وابستگی سرٹیفکیٹ 13جنوری کو جاری کیے جب کہ پی ٹی آئی کو پارٹی سے وابستگی سرٹیفکیٹ کاغذات نامزدگی کے ساتھ لگانے چاہیے تھے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل الیکشن کمیشن سے سوال کیا کہ بتائیں غلطی کہاں اور کس نے کی؟ جسٹس منیب نے پوچھا آپ کہہ رہے ہیں کہ سرٹیفکیٹ غلط ہیں کیونکہ تب تک چیئرمین منتخب نہیں ہواتھا؟ اس پر سکندر بشیر نے جواب دیا کہ کاغذات نامزدگی میں بلینک کا مطلب آزاد امیدوار ہے، سرٹیفکیٹ جمع کراتے وقت جب چیئرمین منتخب نہیں ہوئے تو کاغذات نامزدگی درست نہیں۔
جسٹس محمدعلی مظہر نے کہا کہ یعنی امیدوار نے جو ظاہر کیا اسی پر کاغذات نامزدگی منظور ہوئے، جسٹس نعیم افغان نے سوال کیا آپ نے کاغذات نامزدگی میں پارٹی اسٹیٹس دیکھا یا خود ہی آزاد ڈیکلیئر کردیا؟ اس پر الیکشن کمیش کے وکیل نے بتایا کہ میں نے خود سے آزاد امیدوار ڈیکلیئر نہیں کیا،کاغذات نامزدگی کو دیکھا، حامدرضا کی درخواست دیکھی جس میں کہا گیا کہ آزاد امیدوار ڈیکلیئر کردیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی انٹراپارٹی انتخابات کا معاملہ تو کئی سال قبل سے آرہا تھا، تحریک انصاف بار بار انٹراپارٹی انتخابات کے لیے وقت مانگ رہی تھی، بطور وزیراعظم درخواست دی کہ انٹراپارٹی انتخابات کے لیے سال دےدو، تسلیم شدہ بات ہے پی ٹی آئی سال کا وقت لینے کے باوجود انٹراپارٹی انتخابات نہیں کروا سکی، سپریم کورٹ پر مت ڈالیں الیکشن کمیشن پہلے یہ دیکھ سکتا تھا۔
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے ابتدائی طورپرسنی اتحادکونسل کےلیے بھی مخصوص نشستوں کا تعین کیا مگر بعد ازاں سنی اتحاد کونسل کو نشستیں الاٹ نہیں کیں، اس پر اٹارنی جنرل منصوراعوان نے جواب دیا کہ سنی اتحادکونسل کا اسٹیٹس بھی کلیئر نہیں تھا۔
جسٹس منصور نے ریمارکس دیے کہ آزادامیدواروں کی حیثیت کسی سے کم نہیں وہ کسی بھی جماعت میں شامل ہوسکتےہیں، عدالت چاہتی ہے کسی کو کم زیادہ سیٹیں نہ چلی جائیں، جس سیاسی جماعت کا جو حق ہے اسے ملے، اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ آرٹیکل51 کی تشریح کرتے وقت اتنے دن گزر گئے،کیا کچھ مشکل ہے سمجھنے میں ؟ آئین کیسے بنا کیوں بنا، عدالت نے تبدیل نہیں کرنا، میرے سامنے جو آئین کا پیٹرن آئےگا اسی طرح دیکھوں گا، حق کیا ہے؟ سپریم کورٹ نے آئین کو دیکھنا ہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ فارمولا تو الیکشن کمیشن کے ہاتھ میں ہے، جس کو الیکشن کمیشن چاہے آزادامیدوار بنا دے، اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن کا فیصلہ آزادامیدواروں نے چیلنج کیا؟ کیا ہمارے سامنے کوئی آزادامیدوار آیا ؟
دوران سماعت جسٹس عائشہ ملک نے الیکشن کمیشن وکیل سے 2022 اور 2024 میں ایک ہی معاملے پر دو متضاد فیصلے کرنے کا سوال اٹھا دیا اور کہا کہ سابق فاٹا کے کچھ ایم پی ایز کو صوبائی اسمبلی میں بی اے پی کا کوئی رکن نہ ہونے کے باوجود بی اے پی میں شمولیت کی منظوری دی، پیشگی فہرست نہ ہونے کے باوجود مخصوص نشستیں بھی دی گئیں اس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا وہ فیصلہ الیکشن کمیشن کے اجلاس کے بغیر کیا گیا تھا، موجودہ فیصلہ پورے الیکشن کمیشن نے کیا ہے۔
عدالت نے 2018 اور 2024 میں مخصوص نشستیں کیسے الاٹ کیے جانے کا فارمولا اور دستاویزات مانگ لیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی غیر آئینی کام ہوا ہے تو سپریم کورٹ بالکل اڑا دےگی، الیکشن کمیشن نے کوئی غیر آئینی کام کیا ہے تو بتائیں،الیکشن کمیشن کی کوئی حیثیت سمجھتا ہی نہیں، اگر دھاندلی ہوئی تو جب تک کیس نہیں آئےگا ہم نظرثانی نہیں کرسکتے، ہر انتخابات میں ایک ہی بات ہوتی ہے، کسی نے آج تک نہیں کہا کہ الیکشن ٹھیک ہوا، ہارنے والایہی کہتاہے انتخابات ٹھیک نہیں ہوئے، ہم ادارے کی قدر نہیں کرتے۔
بعد ازاں عدالت نے سنی اتحادکونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کل دن ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردیا۔