12 جولائی ، 2024
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے چیئرمین امجد زبیر ٹوانہ نے کہا کہ آٹا ملز والے اربوں کماتے ہیں اسی لیے ان پر ٹیکس بڑھایا، آٹا ملز مالکان کی سیلز دستاویزی ہو جائے گی جس کی وجہ سے ان میں ڈر اور خوف ہے، آمدن دستاویزی ہونے سے ملز مالکان کو پریشانی ہو رہی ہے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں چیئرمین ایف بی آر امجد زبیر ٹوانہ نے بتایاکہ فلور ملز کی آمدن کو دستاویزی بنایا جا رہا ہے، ان کی 10 کروڑ روپے سے زیادہ آمدن ہوئی تو ٹیکس بڑھ جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اب ان کی سیلز دستاویزی ہو جائے گی جس کی وجہ سے ان میں ڈر اور خوف ہے، وہ 10 کروڑ انکم پر ایک فیصد ٹیکس دینا نہیں چاہتے، ٹیکس وصولی میں کمی صرف رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں نہیں دیگر شعبوں میں بھی ہے،گاڑیوں اور سگریٹ سے ٹیکس وصولی میں کمی ہوئی ہے۔
چیئرمین ایف بی آر نے مزید بتایاکہ 24لاکھ نان فائلرز کی شناخت کی ہے جس میں 18 لاکھ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ٹیکس گوشوارے فائل کیے لیکن پھر بند کر دیے، 6 لاکھ افراد کو ان کی پراپرٹی اور گاڑیوں کی خریداری سے شناخت کیا۔
انہوں نے بتایا کہ گزشتہ مالی سال ڈومیسٹک ٹیکسوں میں 37.2 فیصد کا اضافہ ہوا، 293 ارب روپے کے انکم ٹیکس اقدامات عدالتوں میں چیلنج ہوئے، 163 ارب روپے کے ٹیکس معاملات اب بھی عدالتوں میں ہیں، گزشتہ مالی سال ایڈوانس ٹیکس کی مد میں 1462 ارب روپے ٹیکس اکھٹا ہوا، امپورٹ پر ٹیکس اس وجہ سے بڑھا ہے کہ روپے کی قدر کم اور مہنگائی میں اضافہ ہوا۔
چیئرمین ایف بی آر کا کہنا تھاکہ بجٹ میں تنخواہ دار طبقے، برآمد کنندگان، زراعت، خوراک اور پیکجڈ دودھ پر ٹیکس نہیں لگانا چاہتے تھے، نئے ٹیکسز کی مخالفت کی لیکن مجبوری تھی، آئی ایم ایف نے بات نہیں مانی اور کہاکہ ایف بی آر 70 سال میں انفورسمنٹ کرنہیں سکا، اب ایک سال میں کیسے کرے گا ؟
قائد حزب اختلاف عمر ایوب نےکہا کہ ڈائریکٹ ٹیکس، چونگی ہے اور زبردستی وصول کیاجانےوالا ہے، نیا نظام شفاف اور خود مختار ہونا چاہیے جو تفریق نہ کرے۔
چیئرمین کمیٹی نوید قمر کا کہنا تھاکہ ودہولڈنگ ایجنٹس ہیں تو ایف بی آر کی کارکردگی کیا ہے؟ آٹا ملز والوں کی سیلز اربوں روپے کی ہے۔
خیال رہے کہ ملک بھر میں آٹا ملز مالکان کی ہڑتال آج دوسرے روز بھی جاری رہی، ملز مالکان نے وِد ہولڈنگ ٹیکس کے خلاف مطالبات تسلیم کیے جانے تک ہڑتال جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
ہڑتال کے باعث آٹے کی ملزمیں تالے لگ گئے اورکام بند ہوگیا جس کے باعث مقامی مارکیٹوں کو آٹے کی ترسیل بند ہونے سے قلت پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔