Time 19 جولائی ، 2024
بلاگ

باجوہ کہانی

تاریخ انسانی میں کتنے ایسے سپہ سالار، جو اپنی ہی فوج کو کمزور کر گئے؟، جنرل باجوہ نمایاں۔ پچھلا ہفتہ سیاسی افراتفری کو مزید بڑھا گیا۔ سپریم کورٹ کا ماورائے آئین تاریخی فیصلہ کی بنیاد ’’لاجک‘‘، ازراہ ِتفنن، نظریہ ضرورت گِھسا پٹا لفظ، ’’لاجک‘‘ کی اصطلاح دلکش و دلپذیر ہے۔ 

 سپریم کورٹ فیصلہ اور آبزرویشنز، ’’عمران خان کو آڑے ہاتھوں لینے والوں‘‘ کو آڑے ہاتھوں لیا۔ خاطر جمع رکھیں، سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلہ پر من وعن عمل نہیں ہو گا، نیا بحران جنم لے چکا ہے۔ فیصلے کیساتھ وہی برتاؤ جو سلوک جسٹس بندیال کے پنجاب اور KP الیکشن کے فیصلہ کیساتھ ہوا۔

 بظاہر الیکشن کمیشن، عملاً اسٹیبلشمنٹ ایسے کسی فیصلے کو خاطر میں نہ لانے کی ٹھان چکی۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ پر چہ میگوئیاں، قیاس آرائیاں ابھی جاری تھیں کہ حکومت نے تحریک انصاف کو کالعدم قرار دینے کا عندیہ دے ڈالا ، جاری بحران دُوچند ہو چکا۔

خدشہ، اگلے چند ہفتوں میں جمہوری نظام کا خاتمہ بالخیرنہ ہو جائے؟ عمران خان کا یقین کہ اسے اقتدار کبھی نہیں ملنا چنانچہ ذہن پر ایک ہی دُھن سوارہو گی کہ ’’اگر جان پر کھیل گیا تو ملک میں خانہ جنگی اور انارکی یقینی‘‘، بالآخر عوامی طاقت فوج کو پچھاڑ ڈالے گی یا کمزور کردے گی۔ خدانخواستہ ایسی صورتحال رہی تو بمطابق عمران خان!’’ اسکے پیسے پورے ہو جائیں گے‘‘۔

کاش باجوہ کہانی سال بھر پہلے لکھتا تو روز بروز کی بدلتی بگڑتی وطنی صورتحال پر آج قلم رواں رہتا۔ باجوہ گیم پلان کو سیاق سباق کیساتھ تاریخ کے حوالے نہ کرنا بھی فکری کوتاہی رہتی، لکھنا اشد ضروری ہے۔ درست کہ موجودہ بحران کا نقطہ آغاز عمران خان دھرنا (2014) سے، جنرل راحیل کے سامنے بھی توسیع مدت ملازمت تھی۔ دھرنا کی شاندار ناکامی پر اسٹیبلشمنٹ مایوس کیا ہوتی، 2016 میں پانامہ پیپرز اُمید کی کرن بن گئے ۔

جنرل راحیل کو بھی اپنے سابقین کی طرح ایکسٹینشن یا فیلڈ مارشل بننے کی خواہش تھی، عمران خان کے جسد خاکی میں دوبارہ روح پھونکنے کی ٹھانی۔ عمران خان کو کریڈٹ کہ 2014 سے لیکر آج تک عوام الناس کو سڑکوں پر لانے میں ہمیشہ بُری طرح ناکام رہے۔ اپنی مقبولیت کے عروج پر 25 مئی یا 26 نومبر 2022 کا لانگ مارچ، جیل بھرو تحریک،8فروری الیکشن مبینہ دھاندلی پر5 دفعہ ملک گیر ہڑتال کی کال وغیرہ وغیرہ، ایک موقع ایسا نہیں کہ عوام الناس نے قائد کی کال پر کان دھرے ہوں۔ تعجب نہ تھا کہ 2016 کا لاک ڈاون بھی بُری طرح ناکام رہنا تھا۔

لاک ڈاؤن کی قسمت میں ناکامی نصیب بنی تو سپریم کورٹ کا حرکت میں آنا بنتا تھا۔ عمران خان کو پیغام بھجوایا کہ ’’اگر عوام نہیں نکال سکے تو کیا ہوا، سپریم کورٹ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا‘‘۔ سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس راحیل شریف کے تو کام نہ آیا البتہ جنرل باجوہ کے مفاداتی پلان کی راہیں کشادہ کر گیا۔ باوجود اس کے کہ پانامہ پیپرز میں نواز شریف کا نام نہیں تھا، جنرل باجوہ نے گیم پلان ترتیب دے ڈالا۔ پہلے مرحلے میں جنرل راحیل کی طرح نواز شریف کو پیشکش، ’’وزارتِ عظمی چھوڑ دی تو پانامہ کیس جان چھوڑ دیگا‘‘۔ دہراؤں گا کہ نواز شریف کی آرمی چیف کو توسیع نہ دینا عمران خان سیاست کیلئے نعمت غیر مترقبہ، فوج کیساتھ ایک صفحہ پر آنے میں مددگار رہی۔ 1996 سے لیکر آج تک، عمران خان سیاست کی پہلی، دوسری اور تیسری ترجیح ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کیساتھ گٹھ جوڑہی تو ہے۔

عمران خان کی نواز شریف پر پھبتیاں ’’نواز شریف کی کبھی کسی آرمی چیف سے نہ بن پائی‘‘، مجھے نہیں معلوم ’’اڈیالہ جیل سے اگر رہائی نصیب بنی تو کیا اب بھی وہ نوازشریف پر ایسی پھبتی دوبارہ کَسیں گے؟‘‘ ذکر ’’باجوہ گیم پلان‘‘ کا تو دسمبر 2017میں خادم حسین رضوی کا فیض آباد دھرنا آنکھ اوجھل نہیں رکھنا کہ پہلے معرکہ کا اہم جزو تھا۔

 وزیراعظم نواز شریف کے گھر جاتی عمرہ لاہور میں بھارتی وزیراعظم مودی کی آمد اور اس سے پہلے وزیراعظم واجپائی کا مینار پاکستان آنا ایک دنیا کو ششدر کر گیا۔ یقیناً غیر معمولی دورے پاکستان کی سفارتکاری اور حکمت عملی کی عظیم فتح تھے۔ پچھلے 35 سال سے اسٹیبلشمنٹ کی دیرینہ خواہش بھی یہی کہ بھارت کسی طور مذاکرات پرآمادہ رہے۔ اس مد میں کرکٹ ڈپلومیسی ( 1987) ،بیک چینل ڈپلومیسی سے لیکر آج تک انواع و اقسام کی سر توڑ کوششیں ہمیشہ سے جاری و ساری ہیں۔ 

بد قسمتی کہ جب بھی سیاستدان کبھی بھارتی قیادت کو مذاکرات کی میز پر لاتے ہیں تو اسٹیبلشمنٹ جہاں اندرون خانہ مطمئن، پبلک میں اسکو سیاستدانوں کیخلاف استعمال کرتی ہے۔ عمران اسمبلی فلور پر وزیراعظم مودی سے بات چیت کرنے کیلئے جوترلے کرتے نظر آئے، ’’مودی کو فون کرتا ہوں وہ میرا فون نہیں اٹھاتا‘‘، یقیناً اسٹیبلشمنٹ ہی کی یہ خواہش ہو گی۔ پبلک میں سیاستدانوں کو سکیورٹی رسک اور مودی کا یاربنانے کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کا مقصد ایک ہی کہ سیاست پر دھاوا بولنے سے پہلے اپنے ادارہ کو متحد ومتفق رکھنے کیلئے ایسا بیا نیہ ضروری ہے۔

عام فہم بھی کہ فوج کے اجزائے ترکیبی متفرق سیاسی طبقات، قوم قبیلے، ہر فرقہ مذہب وغیرہ، ہر مکتبہ فکر سے میرٹ پر سلیکٹ ہوتی ہے۔ سیاستدان کو جب بھارت سے جوڑا جاتا ہے تو ادارہ ایک صفحہ پر اُس سے متنفر ہو جاتا ہے۔ 2018 ءالیکشن سے پہلے مضبوط و مقبول لیڈر نواز شریف کے میڈیا اور عدالتی ٹرائل کا مقصد جہاں عوام الناس کو متنفر کرنا تھا، وہاں ’’مودی کا یار‘‘ بتا کر ادارے میں نواز شریف کیخلاف نفرت میں یکسوئی پیدا کرنا زیادہ اہم تھا۔

عوام الناس کو متاثر کرنے میں باجوہ پلان بُری ناکام، نواز شریف پر تاحیات پابندی، وزارت عظمیٰ سے معزولی، پارٹی صدارت چھیننا، بددیانتی پر مبنی عدالتی فیصلے، ضمنی انتخابات سے چند ہفتے پہلے شیر کے نشان سے محروم کرنا، لیگی لیڈروں کی نااہلیاں، اغواء، 10 سال جلاوطنی کی سزا کچھ کام نہ آیا، الٹی پڑ گئیں سب تدبیریں، زور زبردستی بذریعہ RTS الیکشن لوٹا گیا۔ 

2018الیکشن میں نتائج سادہ کاغذ پر مرتب ہوئے جو ’’فارم 45‘‘ کا بدل تھے۔ چنانچہ قضیہ ’’فارم 47‘‘ تک پہنچ ہی نہ سکا۔ حیرت نہیں کہ PTI کو 2024 میں 2018والا فارم 45چاہیے تھا۔ باجوہ گیم پلان کامیابی سے آگے بڑھانے میں بابارحمتے کی سیاہ کاریاں بھی یاد رکھنا ہونگی۔

 پہلا معرکہ جب سَر ہوا تو ملک لاینحل سیاسی بحران کے گرداب میں پھنس چُکا تھا۔ جنرل آصف غفور نے قرآنی آیت کی آڑلی، ’’وتعزمن تشاء وتذل ومن تشاء‘‘، یعنی کہ پوسٹر بوائے عمران خان کا RTS سے جیتنا عزت اور نواز شریف کا جیل جانا ذلت سمجھا گیا اور اسکا فیصلہ جنرل آصف غفور نے اپنی ٹویٹ میں کیا۔ دوسری طرف جنرل باجوہ اپنے ’’کارنامے‘‘ پر سینہ پھلائے اِترائے، کٹھ پتلی عمران کی فتح کو ’’جمہوریت کی فتح قرار دے رہے تھے‘‘۔ چشم زدن میں 26جولائی 2018کو پہلی دفعہ پاکستان بغیر کسی مارشل لا ء کے 100فیصد فوجی کنٹرول میں جا چکا تھا۔ یوں ہوا پہلا معرکہ سَرجبکہ فتح کا سارا کریڈٹ جنرل باجوہ کے سَر۔ (یار زندہ صحبت باقی)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔