Time 12 جولائی ، 2024
بلاگ

باجوہ کہانی!

جنرل باجوہ کے تین معرکے، مملکت کا نقصان کر گئے۔ وطنی بدقسمتی، اکثر فوجی سربراہان ذاتی مفاداتی ایجنڈےمیں ریاست اور ادارے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتے رہے۔

 حیرانی! 75سالہ تاریخ میں 5جنگیں لڑیں، اندرون ملک دہشتگردی کیخلاف4 دہائیوں سے نبردآزما،2 افغان جنگیں لڑیں، اچنبھے کی ہی بات کہ جنرل ایوب سے لیکر جنرل باجوہ تک 15 سربراہان آئے، ایک بھی نہیں کہ بطور قومی ہیرو یاد کیا جائے۔ یقین کامل، پہلی افغان جنگ اگر جنرل ضیاء الحق، سیاسی حکومت کی زیر نگرانی لڑتے تو بطور قومی ہیرو تاریخ میں مقام پاتے۔ 

جنرل باجوہ کے پاس منفرد اعزاز کہ باقاعدہ منصوبہ بندی کیساتھ اپنے ہی ادارے کو ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھایا۔ 29نومبر 2016، جنرل باجوہ کو بہترین فوج کی سربراہی کا اعزاز ملا۔ چھوٹتے ہی، اپنے محسن نوازشریف کی اکھاڑ پچھاڑ میں جنرل راحیل کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی ٹھان لی۔

 چند ماہ بعد ہی، مارچ 2017ء میں نواز شریف کو مجبور کیا کہ آپ وزارتِ عظمیٰ چھوڑ دیں، شہباز شریف یا کسی من پسند بندے کے حق میں دستبردار ہو جائیں۔ پانامہ کیسز سے بھی گلو خلاصی ہو جائیگی۔ 29نومبر 2019ء کی تاریخ چیف بنتے ہی سر پر اپنی اگلی توسیع سوار جبکہ نواز شریف کا ماضی گواہ کہ کسی فوجی سربراہ کو توسیع نہ دی۔

 چنانچہ جنرل باجوہ نے تہیہ کر لیا کہ نواز شریف کو ہٹا کر دم لینا ہے۔ نواز شریف کے انکار پر، کٹھ پتلی حکومت قائم کر کے 2019ء میں ہی توسیع یقینی بنائی۔ پانامہ کیس کی وجہ وجود بھی جنرل راحیل کی توسیع کیلئے نواز شریف پر دباؤ بڑھانا تھا۔ جب کیس شروع ہوا تو جسٹس ’’بلیک لا ڈکشنری‘‘ نے پکوڑے تلنے والی ردی کہا۔ جنرل باجوہ نے اسی ردی سے ایک JIT بنائی، سپریم کورٹ زیر استعمال، نواز شریف نااہل قرار ضرور، قرار نہ آیا کہ سیاست سے باہر رکھنے کیلئے ابھی بہت کچھ کرنا تھا۔ 

پہلے پارٹی صدارت سے ہٹایا، بالآخر 6جولائی 2018ء کو نواز شریف کو مع بیٹی10 سال سزا ملی۔ دھونس دھاندلی سے عمران خان کو اقتدار دلایا، سب پہلے معرکے کا حصہ تھا ۔ اسطرح اختیارات عملاً جنرل باجوہ کے پاس جبکہ وزیر اعظم عمران خان کا اقتدار میں عمل دخل حماقتوں تک محدود رہنا تھا۔ وطنی نظام میں ایک صورت خرابی کی،7جنوری 1951ء سے جب بھی کوئی سپہ سالار بنا، اسی لمحہ تاحیات سربراہ رہنے کا عزم ساتھ لف رہا۔ جنرل باجوہ کا ایجنڈا بھی مختلف نہ تھا ،چیف بنتے ہی تاحیات سربراہ رہنے کی خواہش بدرجہ اتم موجود تھی۔ ’’سیاستدان‘‘ نوازشریف کا جرم، توسیع نہ دینے کی عادت ہی تو ہے۔ پچھلی ایک دہائی سے قومی سیاست کا نواز شریف کی گرفت میں ایسے ہونا کہ اگلے دس سال تاحد نگاہ کوئی نواز شریف کے مدمقابل نہیں تھا۔

جنرل باجوہ کیلئے نواز شریف کی یہ خُو سوہانِ روح تھی۔ 2018 ء الیکشن سال، 29نومبر 2019ء توسیعی دن، نواز شریف ہر صورت سال 2017ء میں ناکارہ بنتے تو تب ہی 2018ء الیکشن باآسانی ہتھیایا جاتا۔ عمران خان اور سپریم کورٹ کا گھناؤنا رول بھی از بر رکھنا ہو گا۔ قدم بہ قدم اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ کا جھنجھنا بنے رہے۔

 دونوں کے پاس اسکرپٹ ایک ہی، نواز شریف پر جھوٹے الزامات اور بہتان، حبّ الوطنی پر سوال، ان کے ذریعہ عدالت کے ایوانوں سے اور سیاست کے میدانوں میں عام کرتے تھے۔ کرپشن، مودی کے یار کا طعنہ، نواز شریف کی کسی آرمی چیف سے نہیں بنی، اسکرپٹ اسٹیبلشمنٹ کا تیار کردہ، عدالتیں اور عمران خان جیسے ایکٹر اپنا اپنا رول ادا کر رہے تھے۔2014ء سے 2018 ء تک، نواز حکومت ایسے زیر عتاب کہ تاریخ ایسی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ 30ٹی وی چینلز حکومت وقت کا موقف دینے سے انکاری ،عمران خان (فرسٹ کزن طاہر القادری شانہ بشانہ) ہرسُو لائیو موجود تھے۔

 جیو ٹی وی کو آف ایئر رکھنے کا ہر ہتھکنڈا زیراستعمال کہ حکومت کا مؤقف بھی جگہ پاتا تھا۔ چھاؤنیاں، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان مع ملکی طول و عرض میں بڑے بڑے کیبل آپریٹرز جیو TV کو دکھانے سے باز تھے۔ 2020ء میں میر شکیل الرحمن کو بغیر کسی وجہ 7 ماہ جیل میں رکھا گیا، جیو/ جنگ کو سبق سکھانا تھا ۔ جنرل باجوہ کا بیان کہ ’’کنٹونمنٹس میں کس TV چینل کو چلانا ہے، یہ میرا اختیار ہے‘‘۔

 انتہائی خطرناک بیان، جیسے کنٹونمنٹس ریاست کے آئینی قانونی نظام سے ماورا ہیں۔ قانونِ قدرت، جنرل باجوہ پہلی دفعہ آرمی چیف بنے تو مذموم ایجنڈےکو بڑھانے کیلئے قدرت نے وسائل حاضر رکھے۔ ایک ماہ اندر چیف جسٹس ثاقب نثار کی صورت میں شریک جرم مل گیا جبکہ عمران خان جیسا دُرشہوار پہلے سے موجود تھا۔ 2017ء اور 2019ء میں وزیراعظم نوازشریف کو تہہ تیغ کرنے، الیکشن 2018ء کا انعقاد اور من پسند حکومت کا قیام ممکن، وارداتوں کیلئے قدرت نے رسی دراز رکھنے کی ٹھان لی تھی۔ غیرآئینی باجوہ گیم پلان آگے بڑھانے کیلئے قدرتی اہتمام جسٹس ثاقب نثار تن من سے حاضر ، دونوں کو کھل کھیلنے کا ہر موقع باآسانی دستیاب رہا۔ عدل کے ایوانوں میں سپریم کورٹ اور سیاست کے میدان میں عمران خان بخوشی مہرہ بن چکے تھے۔ سی پیک کی موجودگی میں2017 ءکا سال نو ہی خوشحالی کا سال بننا تھا، ریاست کی تباہی و بربادی کا سال کہلایا۔ نواز شریف کے پورے خاندان کو عدالتوں کے آگے حاضر رکھا۔ وزیراعظم نواز شریف کے طابع ہر ادارہ مع سپریم کور ٹ مع عمران خان، وزیراعظم پر پلِ پڑا ۔70سال سے اسٹیبلشمنٹ کا اسکرپٹ ایک ہی، کرپٹ، نااہل، سیکورٹی رسک، کم و بیش ہر وزیر اعظم پر ایسے لیبل چسپاں رہے۔ عمران خان نے اس اسکرپٹ کو بذریعہ مقبوضہ میڈیا عوام الناس تک عام کرنا تھا ۔ جسٹس ثاقب نثار نے اسکرپٹ کو جواز اور سند دینا تھی ۔ 

دونوں بھائیوں نے کمال مہارت سے اپنا کردار نبھایا۔ ایک طرف ثاقب نثار عدلیہ کے ایوانوں کو استعمال کر کے ناانصافی کی تاریخ رقم کر رہا تھا تو دوسری طرف عمران خان سیاست کے میدانوں میں اسکرپٹ کو فرفر پڑھ رہا تھا ۔ ازراہ تفنن ، آج’’ مرشد‘‘آئین کی بے حرمتی، اسٹیبلشمنٹ کے تجاوز ، چیف جسٹس کے معیارِ انصاف، فون ٹیپنگ کے مکروہ فعل پر سیخ پا ہیں تو پچھلے 10سال انہی مدوں میں اسٹیبلشمنٹ کے اوصاف حمیدہ پر رطب اللسان تھے۔ ’’مرشد آپ تب بھی سچے تھے اور مرشد آپ آج بھی درست ہو‘‘۔ 

جنرل باجوہ نے پہلا معرکہ سر کر لیا۔ 2018ءتک ہر شعبہ میں جامع طریقہ سے مقاصد پایہ تکمیل کو ایسے پہنچے کہ وطنی تاریخ میں فوجی مداخلت کی ایسی نظیر نہیں ملتی۔ اس کارکردگی پر جنرل باجوہ کو کریڈٹ دینا ہوگا۔ پہلا معرکہ سَرہو جائے تو دوسرے معرکہ کی تیاری کسی بھی جری جرنیل کی سرشت کا حصہ ہے ۔ فتوحات کا سلسلہ جاری رکھنا تھا اور عمران حکومت کو بھی بقلم خود چلانا تھا جبکہ 2019ءمیں توسیع بھی لینا تھی۔ دوسرے معرکہ کی تفصیلات پھر کبھی۔ وہم و گمان میں نہ تھا کہ عمران خان پروجیکٹ کی تکمیل کیساتھ ہی دوسری توسیع کیلئے تیسرے معرکہ کی ٹھان لیں گے۔ (یار زندہ صحبت باقی)۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔