25 اگست ، 2024
پلاسٹک کے ننھے ذرات کو اب تک انسانی دل، شریانوں، پھیپھڑوں اور دیگر حصوں میں دریافت کیا گیا ہے۔
اب سائنسدانوں نے انسانی دماغ میں بھی پلاسٹک کے ننھے ذرات دریافت کیے ہیں۔
امریکا کی نیو میکسیکو یونیورسٹی کے ماہرین نے 2024 کے شروع میں اکٹھے کیے گئے انسانی دماغی نمونوں کا موازنہ 8 سال قبل کے نمونوں سے کیا۔
انہوں نے2024 کے نمونوں میں پرانے نمونوں کے مقابلے میں پلاسٹک کے ننھے ذرات کی زیادہ مقدار کو دریافت کیا۔
محققین نے بتایا کہ 2016 کے مقابلے میں 2024 کے نمونوں میں انسانی دماغی نمونوں میں پلاسٹک کے ذرات کی مقدار 50 فیصد زیادہ تھی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ عہد میں 99.5 فیصد حصہ تو دماغ کا ہوتا ہے جبکہ باقی پلاسٹک پر مبنی ہوتا ہے۔
محققین کے مطابق دماغی نمونوں میں پلاسٹک کے ننھے ذرات کی تعداد گردوں اور جگر کے مقابلے میں 7 سے 30 فیصد زیادہ ہوتی ہے۔
اس تحقیق میں 92 ایسے افراد کے دماغ، گردوں اور جگر کے ٹشوز کا جائزہ لیا گیا جن کی وفات 2016 اور 2024 میں ہوئی تھی۔
دماغی ٹشوز کے نمونے دماغ کے اس حصے سے لیے گئے جو سوچنے اور مطنق جیسی صلاحیتوں سے جڑا ہوتا ہے جبکہ الزائمر امراض سے سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔
انسانی دماغ کا 60 فیصد وزن چکنائی پر مشتمل ہوتا ہے اور ضروری فیٹی ایسڈز دماغی خلیات کی مضبوطی اور کارکردگی کے لیے اہم ہوتے ہیں۔
ہمارا جسم خود یہ فیٹی ایسڈز بنا نہیں پاتا تو غذا یا سپلیمنٹس کے ذریعے انہیں حاصل کیا جاتا ہے۔
غذا ان فیٹی ایسڈز کے حصول کا بنیادی ذریعہ ہے تو اس کے ذریعے پلاسٹک کے ننھے ذرات جسم کے اندر چلے جاتے ہیں۔
البتہ ابھی تک یہ واضح نہیں کہ انسانی جسم کے اندر پلاسٹک کے ننھے ذرات سے صحت پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، مگر لیبارٹری تجربات میں ثابت ہوا کہ ان ذرات سے انسانی خلیات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔