04 ستمبر ، 2024
کیا آپ ہر رات اچھی نیند کے خواہشمند ہیں؟ تو ایک آسان کام کو فوری عادت بنالیں۔
یہ بات نیوزی لینڈ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
خیال رہے کہ نیند ہماری زندگی کا انتہائی اہم عمل ہے جو جسم اور ذہن دونوں کی صحت کے لیے بہت زیادہ ضروری ہے۔
بے خوابی ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا سامنا دنیا بھر میں کروڑوں افراد کو ہوتا ہے جس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں اور اکثر افراد کی نیند چند دن بعد ٹھیک ہو جاتی ہے۔
تاہم اگر بے خوابی کا سامنا مسلسل ہو تو مختلف امراض کا خطرہ بڑھتا ہے۔
اوٹاگو یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ شام کو اسمارٹ فونز یا دیگر اسکرینوں کے استعمال سے نیند پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
ابھی ماہرین کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ سونے سے ایک یا 2 گھنٹے قبل اسمارٹ فونز سے دوری اختیار کرلینی چاہیے۔
مگر اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ سونے سے ایک یا 2 گھنٹے قبل اسمارٹ فونز کے استعمال سے نیند زیادہ متاثر نہیں ہوتی بلکہ بستر پر ان ڈیوائسز کا استعمال مسائل کا باعث بنتا ہے۔
اس تحقیق میں 11 سے 14 سال کے 85 بچوں کو شامل کیا گیا تھا اور انہیں ایک ہفتے تک ہر رات سونے سے 3 گھنٹے قبل باڈی کیمرے پہنائے گئے۔
باڈی کیمروں کے ساتھ ساتھ ان بچوں کے سونے کے کمروں میں انفراریڈ کیمر ےبھی لگائے گئے تاکہ معلوم ہوسکے کہ وہ بستر پر اسکرینوں کا استعمال کرتے ہیں یا نہیں۔
انہیں ایک گھڑی جیسی ڈیوائس بھی پہنائی گئی تھی تاکہ ان کی نیند کا جائزہ بھی لیا جاسکے۔
محققین کے مطابق نوجوانوں میں سونے کے وقت ڈیوائسز کا استعمال موجودہ عہد میں عام ہوچکا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ یہ واضح ہے کہ اب نوجوان بستر پر بہت زیادہ وقت اسمارٹ فونز استعمال کرتے ہوئے گزارتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ تحقیق کی سب سے دلچسپ دریافت یہ تھی کہ سونے سے ایک یا 2 گھنٹے پہلے ڈیوائسز کے استعمال سے نیند پر کوئی خاص اثرات مرتب نہیں ہوتے۔
محققین کے مطابق مگر بستر پر ڈیوائسز کا استعمال کرنے سے نیند متاثر ہوتی ہے تو بہتر ہے کہ سونے سے آدھے قبل اسمارٹ فونز سے دوری اختیار کرلی جائے۔
خاص طور پر اسمارٹ فونز پر گیمنگ اور ملٹی ٹاسکنگ جیسی سرگرمیوں سے نیند متاثر ہونے کا خطرہ بڑھتا ہے۔
محققین نے بتایا کہ بستر پر اسمارٹ فونز کو صرف 10 منٹ استعمال کرنے سے ہر رات کم از کم 10 منٹ کی نیند گھٹ جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنی نیند سے جڑی عادات کا جائزہ لینا چاہیے تاکہ اچھی نیند کو یقینی بناسکیں۔
اس تحقیق کے نتائج جرنل JAMA Pediatrics میں شائع ہوئے۔