Time 14 ستمبر ، 2024
پاکستان

پارلیمنٹ میں سپریم کورٹ کے ججز سے متعلق اہم آئینی ترمیم آج پیش کیے جانے کا امکان

وزیر دفاع خواجہ آصف نے تصدیق کی ہے کہ عدلیہ سے متعلق آئینی ترمیم آج پیش کی جائے گی۔

گزشتہ روز روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والی خبر  میں بتایا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 179 کے مطابق سپریم کورٹ کا جج 65 سال کی عمر تک اپنے عہدے پر فائز رہے گا، ماسوائے اس کے کہ وہ جلد استعفیٰ دے یا آئین کے مطابق عہدے سے ہٹا دیا جائے۔

آئین کے آرٹیکل 195 کے مطابق ہائیکورٹ کا جج 62 سال کی عمر تک اپنے عہدے پر فائز رہے گا، الا یہ کہ وہ جلد استعفیٰ دے یا آئین کے مطابق عہدے سے ہٹا دیا جائے۔ 

حکومت سپریم کورٹ کے ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھا کر 68 کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور  ہائیکورٹ کے ججز کے معاملے میں ریٹائرمنٹ کی عمر 65 سال کی جائے گی اور ایسا آئینی ترمیم سے ہی ممکن ہو گا۔

اس کے علاوہ ججز تقرری کے طریقہ کار میں بھی تبدیلی کا امکان ہے، جوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی کو ایک بنانے کی تجویز آئینی ترمیم کا حصہ ہوگی تاہم سرکاری طور پر اس کی تصدیق نہیں کی گئی۔

دی نیوز اور جنگ کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافے سے متعلق آئینی ترمیم کیلئے حکومت نے قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل کرلی، سینیٹ میں اکثریت صرف تین ووٹوں کی دوری پر رہ گئی، قومی اسمبلی کا اجلاس آج 3 بجے اور سینیٹ کا اجلاس آج شام 4 بجے ہوگا۔

اسی حوالے سے جیو نیوز کے پروگرام نیا پاکستان میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم کے مشیر برائے قانون و انصاف بیرسٹر عقیل ملک نے کہا کہ ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافے کی تجویز زیرِ غور ہے ، مگر اس سے کسی جج کی حق تلفی نہِیں ہوگی، ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے سے تمام موجودہ ججوں کا فائدہ ہوگا۔

بیرسٹر عقیل ملک نے دعویٰ کیا کہ آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے حکومت کے نمبرز پورے ہوگئے ہیں، مولانا فضل الرحمان بھی کہہ چکے ہیں کہ چیف جسٹس کی تعیناتی کے لیے صرف سینیارٹی کو نہیں دیکھنا چاہیے۔

خیال رہے کہ آئینی ترمیم کیلئے سینیٹ اور قومی اسمبلی سے الگ الگ دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے۔

دو تہائی اکثریت کیلئے قومی اسمبلی میں 224 اور سینیٹ میں 63 ووٹ درکار ہوتے ہیں۔

قومی اسمبلی میں حکومتی نشستوں پر 211 ارکان جبکہ اپوزیشن بنچزپر 101 ارکان موجود ہیں، ایسے میں اگر حکومت آئینی ترمیم لانا چاہے تو اسے مزید 13 ووٹ درکار ہوں گے۔

سینیٹ میں حکومتی بنچز پر پاکستان پیپلز پارٹی کے 24، مسلم لیگ ن کے 19، بلوچستان عوامی پارٹی کے 4، ایم کیو ایم کے 3 ارکان ہیں، حکومتی بنچز پر 2 آزاد سینیٹرز جب کہ 2 ارکان انڈیپنڈنٹ بنچز پر ہیں۔

یوں ایوان بالا میں ان کی مجموعی تعداد54 بنتی ہے، اس لیے آئینی ترمیم کے لیے حکومت کو مزید 9 ووٹ درکار ہیں۔

ذرائع کے مطابق حکومت کے پاس اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافے کی خاطر آئین میں ترمیم کیلئے سینیٹ میں صرف 3 ووٹ کم ہیں۔

مزید خبریں :