15 ستمبر ، 2024
ہر فرد کا سونے کا ایک پسندیدہ انداز ہوتا ہے، کچھ پہلو کے بل سوتے ہیں جبکہ کچھ پیٹ کے بل لیٹنا پسند کرتے ہیں، مگر ایسے افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے جو کمر کے بل یا چت لیٹتے ہیں۔
ماضی میں ہونے والی تحقیقی رپورٹس میں کمر کے بل لیٹنے والوں کو ہائی بلڈ پریشر اور خراٹوں سے منسلک کیا گیا۔
مگر اب ایک نئی تحقیق میں سونے کے اس انداز کو مختلف سنگین امراض سے منسلک کیا گیا ہے۔
الزائمر ایسوسی ایشن کی کانفرنس کے موقع پر پیش کی جانے والی تحقیق میں بتایا گیا کہ چت لیٹنے کی عادت اور دماغی تنزلی کے درمیان تعلق موجود ہے۔
امریکا کی کیلیفورنیا یونیورسٹی، مائیو کلینک کالج آف میڈیسن اینڈ سائنسز اور کینیڈا کے سینٹ میری جنرل ہاسپٹل کی مشترکہ تحقیق میں سونے کے اندر سے دماغی صحت پر مرتب اثرات کا جائزہ لیا گیا۔
اس سے قبل 2019 کی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا تھا کہ ہر رات 2 گھنٹے سے زائد وقت کمر کے بل لیٹنے سے دماغی تنزلی کا خطرہ بڑھتا ہے۔
اس نئی تحقیق میں معمولی دماغی تنزلی کے شکار افراد، پارکنسن، ڈیمینشیا اور الزائمر کے مریضوں کے ساتھ ساتھ صحت مند افراد کو بھی شامل کیا گیا تھا۔
ان افراد کے سونے کے انداز کا ڈیٹا اکٹھا کیا گیا۔
محققین نے بتایا کہ ہم نے ایسی ٹیکنالوجی تیار کی جس سے سونے کے انداز اور دماغی تنزلی کے خطرے کے درمیان تعلق ظاہر ہوتا ہے۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ہر رات 2 گھنٹے سے زائد وقت تک چت لیٹنے والے افراد میں دماغی تنزلی کے 4 امراض کا خطرہ دیگر کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔
محققین کا ماننا ہے کہ نتائج سے چت لیٹنے اور دماغی تنزلی کے امراض کے درمیان ٹھوس تعلق کا ثبوت ملتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دن بھر میں جو زہریلا مواد ہمارے دماغ میں جمع ہوتا ہے وہ رات کو نیند کے دوران خارج ہوتا ہے، مگر صفائی کا عمل متاثر ہونے سے یہ مواد بتدریج بڑھتا ہے جس سے 15 سے 20 برسوں کے بعد دماغی تنزلی کی علامات نظر آنے لگتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب ہم کمر کے بل سوتے ہیں تو زہریلے مواد کی صفائی کا عمل زیادہ مؤثر انداز سے کام نہیں کرتا جبکہ لیٹنے کا یہ انداز خراٹوں کی شدت بھی بڑھاتا ہے جس سے نیند متاثر ہوتی ہے اور اس سے بھی زہریلا مواد زیادہ اکٹھا ہوتا ہے۔
محققین نے تسلیم کیا کہ اگرچہ نتائج سے چت لیٹنے اور دماغی تنزلی کے درمیان ٹھوس تعلق کا عندیہ ملتا ہے مگر ابھی اسے ثابت کرنا باقی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ دماغ میں موجود زہریلے مواد کی صفائی کے عمل کا انحصار نیند پر ہوتا ہے تو نیند کی کمی، نیند کا ناکافی وقت اور خراٹوں کا علاج نہ کرانے جیسے عناصر بھی طویل المعیاد بنیادوں پر دماغی تنزلی کا خطرہ بڑھاتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مشورہ دیا کہ نیند کے معیار، اچھی غذا اور ورزش سے دماغی صحت کو بہتر بنانے میں مدد ملتی ہے۔