19 ستمبر ، 2024
لبنان میں پیجر دھماکوں کے واقعات میں استعمال ہونے والے پیجرز سے متعلق نیا سوال پیدا ہوگیا ہے کہ یہ پیجرز تائیوان میں تیار ہوئے یا ہنگری میں؟
پیجرز بنانے والی تائیوانی کمپنی نے پیجرز ہنگری کی کمپنی میں بننے کا دعویٰ کیا ہے جبکہ ہنگری نے تائیوان کے دعوے کی تردید کردی ہے۔
تائیوانی دعویٰ مسترد کرتے ہوئے ہنگرین کمپنی کا کہنا تھا کہ لبنان میں جن ڈیوائسز میں دھماکے ہوئے وہ ہنگری میں کبھی نہیں تھے، پیجر ڈیوائسز بنانے کیلئے کمپنی کا ذکر کیا گیا وہ ٹریڈنگ کمپنی ہے اس کا پیجر بنانے کا کام نہیں ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے کی تحقیق کے مطابق پیجر دھماکوں کے بعد سوشل میڈیا پر گردش کرتی تصویروں میں نظر آنے والے ایک تباہ شدہ پیجر پر ’گولڈ‘ اور ’اے پی‘ یا ’اے آر‘ کے الفاظ نمایاں نظر آتے ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ پیجر تائیوانی کمپنی ’گولڈ اپولو‘ نے تیار کیے۔
بی بی سی نے مزید معلومات کیلئے گولڈ اپولو سے رابطہ کیا تو انہوں نے لبنان دھماکوں میں استعمال ہونے والے پیجرز بنانے سے صاف انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ماڈل بنانے کے بعد اسے کے حقوق ہنگری کی ’بی اے سی‘ نامی کمپنی کو فروخت کردیے گئے تھے۔
تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا کہ گولڈ اپولو کے مطابق بی اے سی نامی ہنگرین کمپنی کو لائسنسنگ ایگریمنٹ کے تحت پیجرز کا یہ ماڈل بنانے اور اس کی برانڈنگ کی اجازت حاصل تھی۔
بی بی سی کا کہنا تھا کہ معاملے سے متعلق معلومات اور مؤقف حاصل کرنے کیلئے بی اے سی نامی کمپنی سے متعدد مرتبہ رابطہ کیا گیا تاہم وہاں سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
جبکہ کمپنی کی ویب سائٹ پر بھی رسائی بند کر دی گئی ہے، جس پر پہلے لکھا ہے کہ کمپنی ایشیا میں اپنا ٹیلی کمیونیکیشن پراڈکٹس کا کاروبار بڑھانے کیلئے کوشاں ہے۔
تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ہنگری کے بڈاپسٹ 14th ڈسٹرکٹ کی ایک بلڈنگ میں قائم بی اے سی نامی کمپنی 2022 میں رجسٹر کی گئی اور اس کے تمام شیئرز ایک خاتون کرسٹیانا بارسونی کے نام تھے جبکہ ان ہی کے نام اسی بلڈنگ میں مزید 13 کمپنیاں بھی رجسٹرڈ تھیں۔
ریکارڈز کے مطابق کمپنی نے 2022 میں 7 لاکھ 25 ہزار ڈالرز کا ٹرن اوور ظاہر کیا تھا جبکہ 2023 میں کمپنی کا ٹرن اوور 5 لاکھ 93 ہزار ڈالرز بتایا گیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ کمپنی کے مالی معاملات سے متعلق تحقیقات کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ ڈیٹا بیس میں بی اے سی نامی ہنگرین کمپنی کے کسی اور کمپنی کے ساتھ کوئی تعلقات ظاہر نہیں ہوئے، ان کی جانب سے کسی اور کمپنی یا فرم کو شپمنٹ بھیجے جانے سے متعلق بھی کوئی ریکارڈ سامنے نہیں آیا۔
رپورٹ کے مطابق لنکڈ ان پر کمپنی کے ایک بروشر میں یورپی کمیشن اور برطانیہ کے محکمہ انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ سمیت 8 آرگنائزیشنز کے نام شامل تھے جن سے متعلق دعویٰ کیا گیا تھا کہ کمپنی نے ان اداروں کے ساتھ کام کیا ہے۔
بی بی سی کی جانب سے برطانوی محکمہ خارجہ سے اس معاملے سے متعلق دریافت کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ معاملے سے متعلق تحقیقات جاری ہیں تاہم ابتدائی معلومات کے مطابق کمپنی کے دعویٰ کے برعکس محکمے نے کبھی اس کمپنی کے ساتھ کوئی کام نہیں کیا۔
برطانوی نشریاتی ادارے نے امریکی خبر رساں ادارے این بی سی کے حوالے سے دعویٰ کیا کہ ان کا بی اے سی کمپنی کی سی ای او کرسٹیانا بارسونی سے رابطہ ہوا جنہوں نے تصدیق کی کہ ان کی کمپنی گولڈ اپولو کے ساتھ کام کرتی رہی ہے تاہم انہوں نے پیجرز بنانے کے معاملے سے انکار کردیا۔
بی اے سی کی مالک کرسٹایانا بارسونی کا کہنا تھا کہ ہم پیجرز نہیں بناتے ہم صرف انٹرمیڈیٹ ٹریڈنگ کا کردار ادا کرتے ہیں، میرے خیال میں آپ لوگوں نے غلط سنا ہے۔
بی بی سی کا کہنا تھا کمپنی کی سی ای او کرسٹیانا بارسونی سے رابطہ کرنے کی بھی کوشش کی گئی تاہم ان کے ساتھ بھی کوئی رابطہ نہ ہو سکا۔
دوسری جانب ہنگرین وزیراعظم کے ترجمان کا کہنا تھا کہ لبنان میں دھماکوں میں استعمال ہونے والے پیجرز کبھی بھی ہنگری میں نہیں تھے۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر اپنے بیان میں انہوں نے لکھا کہ حکام نے تصدیق کی ہے کہ لبنان دھماکوں کے بعد سوالات کی زد پر آنے والی کمپنی ہنگری میں واقع ہے اور وہ ایک ٹریڈنگ کمپنی ہے جس کی ہنگری میں کوئی آپریشنل مینوفیکچرنگ سائٹ موجود نہیں ہے۔
واضح رہے کہ لبنان میں ہونے والے پیجرز دھماکوں میں لبنانی وزیر کے بیٹے سمیت 11 افراد جاں بحق اور 4 ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔