Time 22 ستمبر ، 2024
پاکستان

معافی کس سے مانگوں اور کیوں؟ پرچے کاٹنے ہیں جو کرنا ہے کرلو: وزیراعلیٰ پختونخوا

خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے آئندہ اتوار کو میانوالی میں جلسے کا اعلان کردیا۔

ویڈیو بیان میں علی امین گنڈاپور کا کہنا تھاکہ آئندہ اتوار کو میانوالی میں جلسہ کروں گا، میانوالی کے بعد پنڈی میں جلسہ کریں گے، ان کو ہم بتائیں گے جلسے کیا ہوتے ہیں؟

انہوں نے کہا کہ بار بار معافی کی بات ہورہی ہے، معافی کس سے مانگوں اور کیوں مانگوں؟پہلے معافی مجھ سے مانگیں، بانی پی ٹی آئی کو گرفتار کرنے پر معافی مانگیں، پرامن احتجاج میں میرے لوگوں پر ظلم ہوا، میرے لوگوں کو شہید کیا گیا، اس کی معافی کون مانگے گا؟

ان کا کہنا تھاکہ معافی ظرف والے لوگ مانگتے ہیں، ہم پہلے تمام مظالم کی معافی منگوائیں گے، ہمارے ساتھ زیادتیاں ہوئی ابھی تک ہورہی ہے، معافیوں والی باتیں مت کرو، معافیوں پر بات گئی ہے تو جو زندگی بچی ہے اس پر آپ معافیاں مانگتے پھرو گے، نہ پنجاب حکومت کا غلام ہوں نہ کسی اور کا کہ میں معافی مانگوں، میں نے ایسا کوئی کام نہیں کیا جس پر میں معافی مانگوں۔

وزیر اعلیٰ کے پی کا کہنا تھاکہ پرچے کاٹنے ہیں جو کرنا ہے کرلو، معافی نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بانی پی ٹی آئی کو رہا کر کے وزیر اعظم بنائیں گے، علامہ اقبال نے جس ریاست کا خواب دیکھا تھا پاکستان کو وہ ریاست بنائیں گے، آئین کی بالادستی، بانی پی ٹی آئی کی رہائی تک تحریک چلائیں گے۔

علی امین گنڈاپور کا کہنا تھاکہ پنجاب حکومت نے  کل جلسے میں اسٹینڈرڈ ٹائم کی جو حرکت کی ہے اس کی بھرپور مذمت کرتا ہوں، لاہور کے لوگوں کا شکریہ خوف کا بت توڑ کر بھرپور جلسہ کیا، اس ملک میں تو اسٹینڈرڈ رولز بھی نہیں ہیں، ہمارا مطالبہ ہے دو نہیں ایک پاکستان ہمیں چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ راستے بند تھے، کنٹینرز  رکھے گئے تھے جھوٹا بیانیہ بنایاکہ راستے کھلے تھے، جلسہ گاہ کے دو کلومیٹر تک باڑ لگائی گئی کہ لوگ نہ جاسکیں، ساڑھے 5 بجے لاہور میں پہنچ گیا تھا، سوشل میڈیا پر ریکارڈ موجود ہے، اگر آپ اتنے جمہوری ہیں تو مینار پاکستان میں اجازت دیتے، اگر جمہوری ہو تو دوبارہ مینار پاکستان میں جلسہ کی اجازت دے دیں، رکاوٹوں کے باوجود لوگ نکلے ان کو سلام پیش کرتا ہوں۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز لاہور میں خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور جلسہ ختم ہونے کے بعد جلسہ گاہ پہنچے تھے۔ 

وہاں موجود کارکن انہیں دیکھ کر جوش میں آ گئے تھے، علی امین گاڑی سے باہر نکلے ہاتھ ہلا کر ان کے نعروں کا جواب دیا اور کارکنوں سے گفتگو بھی کی پھر روانہ ہوئے۔

اس سے قبل وہ فیروزوالا پہنچ کر رکاوٹ کیلئے کھڑی گاڑی کو دیکھ کر طیش میں آ گئے تھے، اپنی گن سے گاڑی کا شیشہ توڑا تھا۔

مزید خبریں :