28 ستمبر ، 2024
حسن نصر اللہ 1960 میں لبنان کے دارالحکومت بیروت کے مشرقی علاقے برج حمود میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد عبد الکریم نصراللہ ایک چھوٹے سبزی فروش تھے اور حسن نصراللہ اپنے والدین کے 9 بچوں میں سب سے بڑے تھے۔
ایک عام سے خاندان سے تعلق رکھنے والے حسن نصراللہ کا بچپن سادگی میں گزرا، مگر ان کے دل میں بچپن ہی سے اپنے مذہب اور قوم کے لیے کچھ کرنے کی تڑپ موجود تھی۔
حسن نصراللہ نے ابتدائی تعلیم بیروت میں حاصل کی، لیکن لبنان میں جاری خانہ جنگی کے دوران وہ مسلح گروپ امل تحریک میں شامل ہوگئے۔ 1975 کی خانہ جنگی نے لبنان کو کئی حصوں میں تقسیم کر دیا تھا اور حسن نصراللہ نے اس وقت محسوس کیا کہ انہیں اپنی قوم کی حفاظت کے لیے کچھ بڑا کرنا ہوگا۔
تعلیم کے سلسلے میں حسن نصراللہ کچھ عرصے کے لیے عراق کے مقدس شہر نجف چلے گئے، جہاں انہوں نے مذہبی تعلیم حاصل کی۔ نجف میں قیام کے دوران حسن نصر اللہ نے اسلامی تعلیمات اور سیاست میں گہری دلچسپی لینا شروع کی اور یہیں سے ان کے اندر سیاسی شعور پیدا ہوا ۔
نجف سے واپس آ کر وہ دوبارہ امل تحریک میں شامل ہوگئے مگر 1982 میں اسرائیل کے لبنان پر حملے کے بعد حسن نصراللہ اور ان کے چند ساتھیوں نے امل سے علیحدگی اختیار کی اور ایک نئی تنظیم بنائی جس کا نام اسلامی امل رکھا گیا۔
اسلامی امل کو ایران کے انقلابی گارڈز کی جانب سے بڑی حمایت ملی اور جلد ہی یہ تنظیم نمایاں حیثیت اختیار کرگئی۔ اسی تنظیم نے آگے چل کر 1985 میں حزب اللہ کے نام سے اپنی پہچان بنائی اور حسن نصراللہ نے تنظیم کے اندر اہم عہدے حاصل کیے۔
حسن نصراللہ کی قیادت میں حزب اللہ نے نہ صرف عسکری محاذ پر کامیابیاں حاصل کیں بلکہ لبنانی سیاست میں بھی قدم جمائے۔
1992 میں حزب اللہ کے رہنما عباس الموسوی اسرائیلی ہیلی کاپٹر حملے میں شہید ہو گئے۔ اس واقعے کے بعد حسن نصراللہ صرف 32 سال کی عمر میں حزب اللہ کے رہنما منتخب ہوئے۔ اپنی قائدانہ صلاحیتوں اور بہترین حکمت عملی کے ذریعے حسن نصراللہ نے حزب اللہ کو لبنان کی سب سے مضبوط عسکری اور سیاسی تنظیم میں تبدیل کر دیا۔
حسن نصراللہ نے حزب اللہ کو ایک ملیشیا سے بڑھا کر ایک مکمل سیاسی، سماجی اور عسکری تنظیم میں تبدیل کیا۔ ان کے دور میں حزب اللہ نے نہ صرف اسرائیل کے خلاف کامیاب جنگیں لڑیں، بلکہ لبنان کی سیاست میں بھی اہم کردار ادا کیا۔
حسن نصراللہ نے حزب اللہ کو لبنانی عوام کے لیے ایک بڑی سوشل ویلفیئر تنظیم میں بدل دیا، جو صحت، تعلیم اور سماجی خدمات فراہم کرتی ہے۔ ان کی قیادت میں حزب اللہ نے اسپتال، اسکول، اور فلاحی ادارے قائم کیے، جس سے انہیں غریب اور پسماندہ طبقوں میں وسیع حمایت ملی۔
حسن نصراللہ کی ایک اور منفرد خصوصیت یہ تھی کہ انہوں نے اپنی ذاتی زندگی کو ہمیشہ عوام کی نظروں سے دور رکھا۔ ان کی بیوی اور 4 بچے زیادہ تر ان کی عسکری اور سیاسی مصروفیات سے الگ تھلگ رہے۔ 1997 میں ان کے بڑے بیٹے ہادی نصراللہ اسرائیل کے ساتھ ایک جھڑپ میں شہید ہوگئے، لیکن حسن نصراللہ نے اس واقعے کے بعد بھی اپنے حوصلے کو برقرار رکھا اور عوام کے سامنے اپنے ذاتی نقصان کو حزب اللہ کی جدوجہد کا حصہ قرار دیا۔
حسن نصراللہ کی قیادت میں حزب اللہ اسرائیل کی ایک اہم مخالف تنظیم کے طور پر ابھری، حسن نصر اللہ کا اصرار رہا کہ اسرائیل بدستور ایک حقیقی خطرہ ہے۔
حماس کے7 اکتوبرکو اسرائیل پر حملے کے بعد سے حزب اللہ لبنان، اسرائیل سرحد کے ساتھ تقریباً روزانہ اسرائیلی فوجیوں سے لڑتی رہی ہے۔
خیال رہے کہ لبنان کی مزاحمتی تحریک حزب اللہ نے سربراہ حسن نصر اللہ کی شہادت کی تصدیق کردی ہے۔
گزشتہ روز اسرائیل نے لبنانی دارالحکومت بیروت کے جنوبی علاقے میں بمباری کی تھی اور اس حملے میں 2 افراد شہید اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔
گزشتہ 5 روز میں یہ اسرائیلی فوج کی بیروت پر سب سے طاقتور بمباری تھی، جنوبی ٹاؤن پر اسرائیلی بمباری میں 4 عمارتوں کو نقصان پہنچا تھا۔
اسرائیل فوج نے کچھ دیر قبل بیروت حملے میں حزب اللہ سربراہ حسن نصر اللہ کے مارے جانے کا دعویٰ کیا تھا۔
تاہم اب حزب اللہ نے سربراہ حسن نصر اللہ کی شہادت کی تصدیق کردی ہے۔ حزب اللہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ حسن نصر اللہ شہید ہوگئے۔ حزب اللہ کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے خلاف جنگ جاری رہے گی۔
حزب اللہ کے لبنانی چینل المنار پرحسن نصراللہ کی شہادت کا اعلان کیا گیا۔ اسرائیل نے بیروت حملے میں حزب اللہ سربراہ کی بیٹی زینب نصراللہ کی بھی شہادت کا دعویٰ کیا ہے۔