20 اکتوبر ، 2024
وفاقی کابینہ سے منظورآئینی ترامیم کے مسودے کے نکات سامنے آگئے۔
منظور شدہ مسودے کے مطابق جوڈیشل کمیشن آئینی بینچز اور ججز کی تعداد کا تعین کرے گا، آئینی بینچز میں تمام صوبوں سے مساوی ججز تعینات کیے جائیں گے اور آرٹیکل 184 کے تحت ازخود نوٹس کا اختیار آئینی بینچز کے پاس ہوگا۔
مسودے میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 185کے تحت آئین کی تشریح سے متعلق کیسز آئینی بینچزکے دائرہ اختیارمیں آئیں گے، چیف جسٹس کا تقرر خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی سفارش پرکیا جائے گا اور پارلیمانی کمیٹی سپریم کورٹ کے 3 سینیئر ترین ججز میں سے چیف جسٹس کا تقرر کرے گی۔
مسودہ کے متن کے مطابق کمیٹی کی سفارش پرچیف جسٹس کا نام وزیراعظم صدر مملکت کو بھجوائیں گے، کسی جج کے انکارکی صورت میں اگلے سینیئر ترین جج کا نام زیر غور لایا جائے گا اور چیف جسٹس کے تقرر کے لیے 12 رکنی خصوصی پارلیمانی کمیٹی بنے گی جس میں تمام پارلیمانی پارٹیوں کی متناسب نمائندگی ہوگی، پارلیمانی کمیٹی میں 8 ارکان قومی اسمبلی 4 ارکان سینیٹ سے ہوں گے، چیف جسٹس آف پاکستان کی مدت 3 سال ہوگی۔
چیف جسٹس کے لیے عمر کی بالائی حد 65 سال مقرر کرنے کی تجویز دی گئی۔
مسودے کے مطابق آرٹیکل184 تین کے تحت سپریم کورٹ اپنے طورپرکوئی ہدایت یا ڈیکلیئریشن نہیں دے سکتی، آرٹیکل186 اےکےتحت سپریم کورٹ ہائیکورٹ کے کسی بھی کیس کوکسی دوسری ہائیکورٹ یا اپنے پاس منتقل کرسکتی ہے، ججز تقرری کمیشن ہائیکورٹ کے ججزکی سالانہ کارکردگی کا جائزہ لے گا۔
مسودے میں آئینی بینچ تشکیل دینے کی تجویز بھی شامل ہے۔ مسودے کے مطابق جوڈیشل کمیشن آئینی بینچز اورججزکی تعداد کا تعین کرے گا، آئینی بینچز میں جہاں تک ممکن ہوتمام صوبوں سے مساوی ججزتعینات کیے جائیں گے، آرٹیکل 184 کے تحت ازخود نوٹس کا اختیار آئینی بینچزکے پاس ہوگا۔
مسودہ میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 185 کے تحت آئین کی تشریح سے متعلق کیسز آئینی بینچزکے دائرہ اختیارمیں آئیں گے، آئینی بینچ کم سے کم پانچ ججز پر مشتمل ہوگا، آئینی بینچز کے ججز کا تقرر تین سینیئر ترین ججز کی کمیٹی کرے گی، چیف جسٹس کا تقررخصوصی پارلیمانی کمیٹی کی سفارش پر کیا جائے گا اور سپریم کورٹ کے ججز کا تقرر کمیشن کرے گا۔
مسودے میں مزید کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن میں 4 سینیئرترین ججز شامل ہوں گے، وفاقی وزیر قانون اور اٹارنی جنرل بھی کمیشن کے ارکان ہوں گے، کم سے کم 15 سال تجربے کا حامل پاکستان بارکونسل کا نامزد کردہ وکیل 2 سال کیلئے کمیشن کا رکن ہوگا، دو ارکان قومی اسمبلی اور دو ارکان سینیٹ کمیشن کا حصہ ہوں گے اور سینیٹ میں ٹیکنوکریٹ کی اہلیت کی حامل خاتون یا غیرمسلم کو بھی 2 سال کے لیے کمیشن کا رکن بنایا جائےگا۔
مسودہ میں آرٹیکل 48 میں ترمیم تجویز دی گئی ہے جس کے مطابق وزیراعظم یا کابینہ کی جانب سے صدرکو بھجوائی گئی ایڈوائس پرکوئی عدالت،ٹریبونل یا اتھارٹی سوال نہیں اٹھاسکتی۔