23 دسمبر ، 2024
ماسکو: روس نے معزول شامی صدر بشار الاسد کی اہلیہ اسماالاسد کی جانب سے عدالت میں طلاق کی درخواست دائر کرنے کی خبروں کی تردید کردی۔
برطانوی خبر ایجنسی کے مطابق روسی صدارتی دفتر کریملن کے ترجمان نے ترک میڈیا کی ایسی خبروں کی تردید کی ہے جن میں کہا گیا تھا کہ اسماالاسد طلاق کے بعد برطانیہ منتقل ہونا چاہتی ہیں۔
کریملن کے ترجمان کا کہنا تھا کہ اسماالاسد کی شوہر سے طلاق کے لیے روسی عدالت میں درخواست اور برطانیہ منتقلی کی رپورٹ حقیقت نہیں۔
کریملن کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ روس میں بشار الاسد کی نقل وحرکت پر پابندی اور اثاثے منجمدکرنےکے دعوؤں میں بھی صداقت نہیں ہے۔
خیال رہے کہ ترک میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ معزول شامی صدر بشارالاسد کی اہلیہ اسماالاسد نے شوہر سے علیحدگی کے لیے روسی عدالت میں درخواست دائر کردی ہے اور وہ طلاق لے کر برطانیہ منتقل ہونا چاہتی ہیں۔رپورٹس کے مطابق اسماالاسد ماسکو میں خوش نہیں ہیں اور واپس برطانیہ اپنی والدہ کے پاس جانا چاہتی ہیں جہاں وہ پیدا ہوئیں، پلی بڑھیں اور تعلیم حاصل کی، ان کے پاس اب بھی برطانوی شہریت ہے۔
خیال رہے کہ دو ہفتے قبل شام کے دارالحکومت دمشق پر اپوزیشن فورسز کے قبضے سے قبل ہی صدر بشار الاسد اپنے خاندان کے ساتھ روس فرار ہوگئے تھے۔ روس نے بشار الاسد اور ان کے خاندان کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پناہ دی ہوئی ہے۔
بشارالاسد کے والد حافظ الاسد کے سن 2000 میں انتقال کے بعد 34 سالہ بشار کو صدر مقرر کیا گیا تھا۔ اس کے چند ماہ بعد بشار الاسد نے اسما سے شادی کر لی جس نے بہت سے لوگوں کو حیران کر دیا تھا، دونوں کے 2 بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔
لندن کے ایک شامی نژاد سنی خاندان میں پیدا ہونے والی اسماکے والد ماہر امراض قلب تھے اور ایک پرائیویٹ کلینک میں پریکٹس کرتے تھے۔ ان کی والدہ ایک سفارت کار تھیں اور لندن میں شامی سفارت خانے میں فرسٹ سیکرٹری کے طور پر کام کر چکی تھیں۔
برطانوی نیوز ویب سائٹ ڈیلی میل کی ایک رپورٹ کے مطابق اسما الاسد نے ڈکٹیٹر شوہر کے دور حکومت میں عیش وعشرت بھری زندگی گزاری اور خاتون اول کی حیثیت سے انہوں نےگھریلو اشیاء اور کپڑوں پر لاکھوں ڈالر اڑائے۔
شام میں خانہ جنگی کے دوران جب بشار حکومت پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے الزامات لگائے جارہے تھے ایسے میں انہوں نے پنے شوہر کا خوب دفاع کیا اور سوشل میڈیا پر بھی خوب سرگرم رہیں۔