24 دسمبر ، 2024
سائنسدانوں نے معدے اور دماغ کے درمیان موجود ایک پراسرار تعلق پر روشنی ڈالی ہے۔
اس تعلق کے نتیجے میں انسانی دماغ کا حجم بڑھانے میں مدد ملی، حالانکہ جانوروں کا دماغی حجم بہت کم ہوتا ہے۔
امریکا کی نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کی تحقیق میں معدے میں موجود جرثوموں پر لیبارٹری میں تجربات کیے گئے۔
تحقیق میں انکشاف ہوا کہ انسانی معدے میں موجود جرثومے ہمارے دماغ کو توانائی فراہم کرنے کا کام کرتے ہیں جبکہ دیگر جانوروں میں یہ جرثومے اس توانائی کو ذخیرہ کرتے ہیں۔
دماغی ٹشوز میٹابولک نظام کے لیے مشکل ہوتے ہیں تو ہمارے جسم کو ایسی متعدد تبدیلیوں سے گزرنا پڑتا ہے جو ہمارے بڑے دماغی ٹشوز کو سہارا فراہم کرسکیں۔
محققین اسی سوال کا جواب جاننا چاہتے تھے کہ ہمارے معدے میں موجود صحت کے لیے مفید بیکٹیریا اس حوالے سے کوئی کردار ادا کرتے ہیں یا نہیں۔
اس مقصد کے لیے محققین نے چوہوں کے جسموں میں انسانوں سمیت 3 مختلف جانداروں کے معدے کے جرثومے داخل کرکے ان کے اثرات کا موازنہ کیا۔
محققین نے ان چوہوں کے جسمانی وزن، جگر کے افعال، چربی کی مقدار اور خالی پیٹ گلوکوز کو مانیٹر کیا۔
انہوں نے دریافت کیا کہ انسانی بیکٹیریا والے چوہوں میں خالی پیٹ گلوکوز، خون میں چکنائی کی سطح زیادہ تھی جبکہ کولیسٹرول لیول کم رہا۔
ان چوہوں کا جسمانی وزن بھی دیگر دونوں کے گروپس کے چوہوں کے مقابلے میں سب سے کم بڑھا۔
اس سے عندیہ ملا کہ انسانی معدے میں موجود بیکٹیریا توانائی ذخیرہ کرنے کی بجائے دماغ کو ایندھن فراہم کرنے والی شکر تیار کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
محققین کے مطابق انہیں پہلے سے توقع تھی کہ انسانی بیکٹیریا کے اثرات دیگر کے مقابلے میں مختلف ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ جب انسانی دماغ کا حجم ارتقائی مراحل سے گزر رہا تھا اس وقت معدے میں موجود جرثوموں کے افعال بھی تبدیل ہونے لگے تاکہ اس عمل کے لیے ضروری توانائی فراہم کرسکیں۔
انہوں نے بتایا کہ دماغی نشوونما اور اس کے حجم کو مستحکم رکھنے کے لیے ہمیں ننھے بیکٹیریا کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ہم جانتے ہیں کہ بیکٹیریا بڑی آنت میں رہتے ہوئے ایسے مرکبات تیار کرتے ہیں جو انسانی جسم کے متعدد افعال پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ نشوونما کے دوران دماغ کی توانائی کی طلب کی سطح میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں، جیسے بچپن میں توانائی کی طلب عروج پر ہوتی ہے جس میں عمر بڑھنے کے ساتھ بتدریج کمی آتی ہے۔
اس تحقیق کے نتائج جرنل Microbial Genomics میں شائع ہوئے۔