22 جنوری ، 2025
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے چیئرمین حفیظ الرحمان نے سینیٹ کمیٹی کوبتایا کہ ابھی وزارت داخلہ کی طرف سے ایلون مسک کی کمپنی اسٹار لنک کی کلیئرنس نہیں آئی، انہیں تحفطات سے آگاہ کیا تو انہوں نے حکومت کی پالیسی سے اتفاق کیاہے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا سینیٹر پلوشہ خان کی زیر صدارت اجلاس ہوا جس میں پاکستان میں اسٹار لنک کی لانچ پر بریفنگ دی گئی۔
چیئرمین پی ٹی اے حفیظ الرحمان نے کہا کہ پاکستان میں قومی اسپیس پالیسی 2023 میں آئی جس پر 2024 میں رولز بنے پھر اسپیس کے حوالے سے پاکستان اسپیس ریگولیٹری بورڈ قائم کیا گیا، یہ باڈی نیشنل کمانڈ اتھارٹی کے ماتحت ہو گی، حکومت نے سوچا ہو گا کہ سپارکو کو کمرشل تحفظ دیں، اس لیے ریگولیٹری باڈی قائم کی گئی۔
ان کا کہنا تھاکہ کوئی سیٹیلائٹ پاکستان میں سروس دینا چاہے تو وہ پہلے ای ای سی پی کے پاس رجسٹر ہو گی پھر ریگولیٹری بورڈ کے پاس رجسٹر ہو گی پھر پی ٹی اے کے پاس لائسنس کیلئے آئیں گے۔
انوشہ رحمان نے استفسار کیا کہ نگراں حکومت کے دور میں کیسے پالیسی بنی؟ چیئرمین پی ٹی اے نے بتایا کہ اسٹار لنک نے فروری 2022 میں لائسنس کیلئے اپلائی کیا جو وزارت داخلہ کےپاس سکیورٹی کلیئرنس کے لیے گیا، وزارت داخلہ کی طرف سے اسٹار لنک کی کلیئرنس نہیں آئی۔
انہوں نے کہا کہ لنک ریمورٹ علاقوں میں بزنس والے لوگوں کو سپورٹ کرے گا، اسٹار لنک نئے ریگولیٹری بورڈ کےساتھ رجسٹر ہوگی تو پی ٹی اے لائسنس جاری کر دیں گے، ایک چینی کمپنی ٹرپل ایس ڈی بھی پاکستان آرہی ہے۔ کوئی سیٹلائٹ بھی پاکستان آ سکتی ہے۔
ڈاکٹر افنان اللہ خان نے کہا کہ ایلون مسک نے پاکستان کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلائی جس میں پاکستانیوں پر الزام لگائے گئے جو بھی فیصلہ کریں ایلون مسک نے جو کہا ہے اس نظر میں رکھیں۔
پلوشہ خان نے کہا کہ ایلون مسک پاکستان مخالف ہے، اس کی وجہ سے ہماری عالمی بدنامی ہوئی ہم اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہیں۔
انوشہ رحمان نے کہا کہ ہم انٹرنیٹ کی بندش بھی دیکھ رہے ہیں، اب ایسی سیٹلائٹ لا رہے ہیں جو ایلون مسک جیسے جارحانہ رویے کے حامل شخص کے ماتحت ہے، صرف سکیورٹی کا مسئلہ نہیں غیرا خلاقی نوعیت یا عملدرآمد کے مسائل آئیں گے، اسے ہینڈل کرنے کا کیا لائحہ عمل ہو گا؟ جو مواد چلے گا اس کیلئے ریگولیٹری باڈی کون ہوگی؟
چئیرمین پی ٹی اے نے کہا کہ ریگولیٹری باڈی ان سب باتوں کو دیکھ کر ہی لائسنس دینے کا فیصلہ کرے گی، یہ وہ براہ راست سیٹلائٹ سے سیٹلائٹ میں نہیں چلے گا، اسٹار لنک گراؤنڈ پر آئے گا، گیٹ وے کے ذریعے چلے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اتھارٹی نے اپنے تحفظات انھیں دیے ہیں، اسٹار لنک نے حکومتی پالیسی سے اتفاق کیا ہے، وہ سسٹم کو بائی پاس نہیں کریں گے، جب حکومت کہے گی ڈیٹا بلاک کرے تو وہ بلاک کریں گے، ایلون مسک کی ٹوئٹ کی وجہ سے اسٹارلنک کی پاکستان رجسٹریشن کا معاملہ دوبارہ اٹھا۔
ایڈیشنل سیکریٹری آئی ٹی نے کہا کہ اسپیس کی ریگولیشن ٹیکنیکل ہے، اسے سپارکو دیکھتا ہے۔ ا نوشہ رحمان نے کہا کہ یہ کام تو پی ٹی اے کو کرنا چاہے تھا، ابھی وزارت آئی ٹی نے پیکا کی ذمہ داری وزرات داخلہ کو دے۔
کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں سپارکو اور ریگولیٹری اتھارٹی کو طلب کر لیا۔